پاک چائنہ اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ پر ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کا وعدہ پورا کیا جائے ،اپوزیشن

منصوبہ متنازع ہو گیا تو کبھی مکمل نہیں ہو گا ، حکومت دفاعی بجٹ میں ہیرا پھیری نہ کرے ، سینیٹر فرحت اﷲ بابر غذائی اشیاء پر سیلز ٹکیس کی مذمت کرتے ہیں ، سندھ کو نظر انداز کیا گیا تو مزاحمت کرینگے ، تاج حیدر خیبر پختونخوا میں ہائیڈرل منصوبوں پر کام کر کے عوام کو سستی بجلی دی جاسکتی ہے ،ٹریکٹر پر امپورٹ ڈیوٹی ختم کی جائے ، بجٹ کی تیاری میں سینیٹ کو اعتماد میں لیا جائے ، سینیٹر ایم حمزہ ، سینیٹر ساجد میر ، احمد حسن اور دیگر اراکین کا بجٹ بحث پر اظہار خیال

بدھ 10 جون 2015 20:15

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 10 جون۔2015ء) سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ پر ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کا وعدہ پورا کیا جائے ، منصوبہ متنازع ہو گیا تو کبھی مکمل نہیں ہو گا ، غذائی اشیاء پر سیلز ٹکیس کی مذمت کرتے ہیں ، سندھ کو نظر انداز کیا گیا تو مزاحمت کرینگے جبکہ اپوزیشن کے ساتھ حکومتی سینیٹر ایم حمزہ نے بجٹ میں زراعت کے شعبے کو نظر انداز کرنے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ خیبر پختونخوا میں ہائیڈرل منصوبوں پر کام کر کے عوام کو سستی بجلی دی جاسکتی ہے ،ٹریکٹر پر امپورٹ ڈیوٹی ختم کی جائے ، بجٹ کی تیاری میں سینیٹ کو اعتماد میں لیا جائے ۔

بدھ کو وقفے کے بعد سینیٹ کا اجلاس دوبارہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبد الغفور حیدری کی صدارت میں شروع ہوا ۔

(جاری ہے)

بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ گزشتہ بجٹ میں سینیٹ نے جو تجاویز دی تھیں ان میں سے ایک بھی قبول نہیں ہوئی مجھے خدشہ ہے کہ اس سال بھی سینیٹ کی کوئی تجویز قبول نہیں کی جائے حکومت کہتی ہے کہ عالمی اداروں نے معیشت کے اعشاریے کو سراہا وہ ایسا کیوں نہیں کرینگے اس لئے کہ حکومت نے ان پالیسیوں کو اپنایا ہم تسلیم کرتے ہیں کہ پی پی حکومت نے خسارے کے بجٹ دیئے ہمیں فخرہے کہ ہم نے وسائل کا رخ عوام کی جانب موڑا تنخواہوں میں اضافہ کیا چین اس لیے راہداری بنا رہا ہے کہ ان کی پروڈکٹ جلد مارکیٹ تک پہنچے ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن اپنی پیداوار کو بھی بڑھایا جائے تاکہ ہماری سڑکوں پر ہمارا اپنا سامان بھی جائے ۔

دوبئی کے اندر 4 بلین ڈالر کے مکانات خرید گئے سٹاک ایکسچینج بیمار خانے میں تبدیل ہو گیا صنعتوں کو ٹیکس پر چھوٹ کے تجربات پہلے بھی کئے گئے ایسی صنعتیں صرف فائلوں کی حد تک ہے بجٹ میں غریب کیلئے گھر کی کوئی سکیم نہیں ہے ساری سہولیات اشرافیہ کو دی گئی ہیں ۔ زراعت کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا غریب کی بجائے ٹیوب ویل پر بڑے کسانوں کو فائدہ دیا گیا ۔

غذائی اشیاء پر سیل ٹیکس کی مذمت کرتے ہیں۔ پی ایس ڈی پی میں سندھ کو 10 بلین سے زائد کی سکیمیں نہیں دی گئیں سندھ کے ساتھ ظلم نہیں ہونا چاہئے ہم مزاحمت کرینگے ہماری زندگی موت کا مسئلہ ہے ۔ سینیٹر ایم حمزہ نے کہا کہ حکومت نے وعدہ کیا کہ دو تین سالوں میں بجلی کی قلت ختم ہو جائے گی حقیقت ہے کے پی میں ہائیڈل منصوبے بنا کر سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے ۔

زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا حکومت مبارکباد کی مستحق ہے پاکستان زرعی ملک ہے حکومت نے گندم کی قیمت 1300 روپے من مقرر کی اعلان کیا گیا ہمارے علاقے اور سندھ میں 1100 روپے من فروخت ہوئی جب کاشتکاروں کو صحیح قیمت نہیں ملے گی تو وہ پیداوار میں اضافہ کیسے کرینگے یہ پاکستان کے ساتھ ظلم ہے۔ حکومت اس طرف توجہ دے حکومت زراعت کو زیادہ سے زیادہ مراعات دے حکومت ٹریکٹر پر امپورٹ ڈیوٹی ختم کرے ۔

اس بجٹ کی تیاری میں سینیٹ کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ متوازن بجٹ قوم کے سامنے آئے اور عوام کا بھلا ہو۔ فرحت اﷲ بابر نے کہاکہ سنیٹ کے پاس اختیار نہیں کہ بجٹ میں ترمیم کر سکے زیادہ سے زیادہ ان چیزوں کی طرف نشاندہی کر سکتے تاکہ حکومت اصلاحات کرے ۔ اعداد و شمار کے پیچھے چھپا ہوا پیغام ہی حکومت کا اصل پیغا م ہوتا ہے اعداد و شمار میں ایک خطرناک پیغام نظر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت چائنا پاکستان راہدری پر اے پی سی کے متفقہ فیصلہ اور وزیراعظم کا اعلان کردہ روٹ کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل نہیں کر رہی لگتا ہے حکومت مغربی روٹ کو مکمل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی مشرقی روٹ کے لنک کیلئے 60 بلین رقم مختص کی گئی ۔

مغربی روٹ کیلئے 12 فیصد رکھی گئی یہ پاکستان چائنہ راہداری کو متنازع بنانے کی کوشش ہے اگر متنازع ہو گیا تو کبھی مکمل نہیں ہو گا ۔ حکومت اے پی سی کے فیصلے پر عمل کرے اور پی ایس ڈی پی میں اس منصوبے کیلئے اعداد و شمار تبدیل کرے ۔یہی مارشل پلان تھا اگر غربت کو ختم کرنا ہے تو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے اس حصے کو جاری رکھنا تھا جو وسیلہ حق اور وسیلہ روزگار تھا۔

ان پروگرامز کو ختم کرنے کا مطلب ہے کہ ہم بھکاریوں میں اضافہ کر رہے ہیں دفاعی بجٹ میں 11 فیصد مناسب ہے ہماری افواج نے قربانیاں دی ہیں لیکن ہم دفاعی بجٹ کے اعداد و شمار تو کھل کر بجٹ میں رکھیں۔ پنشن فورس کو اٹھا کر سول میں دکھا دیا گیا بجٹ کو کسی اور میں ضم نہ کیا جائے ۔ دفاعی بجٹ میں ہیرا پھیری نہ کریں۔ ان کی ضروریات کے مطابق ضرور اضافہ کریں اور دفاعی بجٹ میں شفافیت اور احتساب کے ساتھ اضافہ کریں۔

دہشتگردی سے متاثرہ فاٹا کی ترقی کیلئے کام کیا جائے ۔یونیورسٹی کیلئے پونے پانچ ارب روپے کی ضرورت ہے فاٹا کی یونیورسٹی کیلئے 25 کروڑ رکھے گئے اگر یہ صورتحال رکھی گئی تو یونیورسٹی 40 سال میں مکمل ہو گی ۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ نواز شریف نے ہمسائیوں سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی جبکہ مودی نے حالات کو مزید خراب کیا ۔

انہوں نے کہا کہ صحت پر کم از کم7 فیصد خرچ کیا جائے تعلیم کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جیسے تعلیم کوئی بات ہی نہیں دنیا تعلیم سے ترقی کرتی ہے ۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اچھا اقدام ہے ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے ۔ موجودہ حکومت نے توانائی بحران کے خاتمے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے دو سال میں اثرات نظر آنا شروع ہو جائیں گے ۔

اسحاق ڈار نے جیسے معیشت کے پہیے کو چلانے کی کوشش کی ہے اس کے اثرات جلد سامنے آئیں گے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔ مولانا تنویر الحق تھانوی نے کہا کہ موجودہ بجٹ سے متعلق ہمارا موقف واضح ہو چکا ہے فیڈ مارشل ایوب خان کی طرح یہ روایت سامنے آ رہی ہے کہ ملکی ترقی آبادی کنٹرول کرنے سے ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ مذہبی مسئلہ نہیں ہے اﷲ کا نظام ہے دنیا کے کسی ملک میں نہیں سنا کہ وہ اس لئے خوشحال ہے کہ آبادی کم ہے ۔

اپنی نا اہلی کو چھپانے کیلئے ایسی باتیں کی جاتی ہیں اصل میں ہم نے وسائل اور دولت کی تقسیم کو جس طرح پامال کیا اس کی وجہ سے حالات ایسے ہیں۔ ہمیں تعصب کو ترک کرنے کی ضرورت ہے علماء اور مذہب سے اس چیز کاکوئی تعلق نہیں دھرنے اور ریلیاں نکالنے میں علماء بھی پیچھے نہیں ہیں سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظام دنیا میں ناکام ہو گئے ہیں اسلام اور سنت پر عمل کر کے کامیاب ہو سکتے ہیں پیپلز پارٹی کے سینیٹر احمد حسن نے کہا کہ لواری ٹنل کیلئے بجٹ میں بہت کم رقم رکھی گئی ایسا لگتا ہے کہ یہ منصوبے 50 سال میں مکمل ہو گا کیا یہ منصوبہ دوسرے منصوبے سے زیادہ اہلیت نہیں رکھتا حکومت کی تین ترجیحات ہیں تاکہ وہ آئندہ پانچ سال مزید حکومت کرے خیبر پختوخوا میں بجلی کا وہی حال ہے جو تین سال پہلے تھا قومی مفاد کے مسائل کیلئے سب متحد ہو کر منصوبہ بندی کریں اور انہیں حل کیا جائے ۔

اگر آج پارلیمنٹ مضبوط ہے تو وہ پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ مفاہمت کی سیاست ہے ورنہ گزشتہ سال جو ہوتا رہا شاید آج یہ پارلیمنٹ بھی نہ ہوتی۔ تمام شہدا کے حالات پر رحم کریں اور انکے ساتھ کئے گئے وعدے پورے کئے جائیں۔