جوڈیشل کمیشن کا اجلاس، سابق اور موجودہ سیکرٹری الیکشن کمیشن پیر کو طلب ، مدثررضوی پر فریقین کے وکلا کی جرح مکمل

جمعہ 22 مئی 2015 15:27

جوڈیشل کمیشن کا اجلاس، سابق اور موجودہ سیکرٹری الیکشن کمیشن پیر کو ..

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 22مئی۔2015ء ) مبینہ انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کیلئے قائم جوڈیشل کمیشن کے رو برو بیان ریکارڈ کراتے ہوئے فافن کے ہیڈ آف پروگرام مدثر رضوی نے کہا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے فون کرکے این اے 122 پر فافن کی رپورٹ پر برہمی اور غصے کا اظہارکیا تھا ، میرے خلاف لاہور میں 10 اور رحیم یار خان میں دو مقدمات درج کروائے گئے ، ایاز صادق کے علاوہ کسی بھی حکومتی اہلکار یا سیاسی شخصیت کی کوئی فون کال یا دھمکی نہیں ملی ،فافن نے 2013کے انتخابات میں 264 حلقوں کے نتائج تیار کیے ، 218 حلقوں کے نتائج الیکشن کمیشن کے مطابق جبکہ 18 میں ہارنے والے امیدوار کی پوزیشن میں کچھ فرق آیا ، فافن کو حکومت کی طرف سے کوئی امداد نہیں ملتی ، غیر سرکاری تنظیم ہے ، فافن کی فنڈنگ امریکہ ، برطانیہ دیگر یورپی ممالک سے آتی ہے ، انتخابات کے بعد فافن نے 29 جلدوں پر مشتمل رپورٹ الیکشن کمیشن میں پیش کی ، مبینہ انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کیلئے قائم جوڈیشل کمیشن کا اجلاس پیر تک ملتوی کردیا گیا ، سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد اور الیکشن کمیشن کے موجودہ سیکرٹری بابر یعقوب کو پیر کو طلب کرلیا گیا جبکہ سابق الیکشن کمشنر بلوچستان اورسابق سیکرٹری پرنٹنگ کارپوریشن پاکستان نعیم اختر پر جرح منگل کو ہوگی ، تحریک انصاف نے گواہوں کی ترمیم شدہ نئی فہرست انکوائری کمیشن میں جمع کروا دی ، مزید 12 گواہوں کے نام تجویز ، گواہوں میں سابق اور موجودہ سیکرٹری الیکشن کمیشن ، بلوچستان کے الیکشن کمشنر ، سابق سیکرٹری پرنٹنگ کارپوریشن سمیت دیگر شامل ہیں ۔

(جاری ہے)

جمعہ کو مبینہ انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کیلئے قائم جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہوا ، چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن نے سماعت کی ۔ سماعت میں فافن کے ہیڈ آف پروگرام مدثر رضوی پر تینوں فریقین کے وکلاء نے جرح مکمل کرلی ۔ تحریک انصاف کے وکیل حفیظ پیرزادہ نے جرح کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا این جی اوز اور میڈیا کو فارم 14 سے 17 تک رسائی دی گئی ؟ جس پر مدثر رضوی نے کہا کہ فارم 14 کی مصدقہ نقل ریٹرننگ افسران کے ذریعے حاصل کی ، بعض حلقوں کے ریٹرننگ افسران نے فارم 14 دینے سے انکار کیا ، ریٹرننگ افسران کے انکار کے بعد الیکشن کمیشن اور وفاقی محتسب کو درخواست دی ، وفاقی محتسب نے فارم 14 کی کاپیاں پندرہ روز میں فراہم کرنے کا حکم دیا ۔

فافن کی رپورٹ انکوائری کمیشن میں جمع کروائی جا چکی ہے ، فافن نے سفارشات الیکشن کمشین کو اکتوبر 2014ء کو بھجوائیں ، حفیظ پیر زادہ نے سوال کیا کہ کیا آپ نے گنتی سے متعلق فارم 14 کا جائزہ لیا؟ جس پر چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے کہ مدثر رضوی خود فارم چودہ کا جائزہ کیسے لے سکتے ہیں جبکہ مدثر رضوی نے بتایا کہ میں نے فارم 14 کا جائزہ نہیں لیا ۔

مدثر رضوی نے کمیشن کے روبرو اپنے بیان میں کہا کہ 9 ماہ سے فافن کے ہیڈ آف پروگرام کے طور پر کام کررہا ہوں اور انتخابات میں 2008 اور 2013ء کے دوران بطور مبصر کام کیا ہے ، انتخابات کے بعد فافن نے 29 جلدوں پر مشتمل رپورٹ الیکشن کمیشن میں پیش کی ، 2008ء کے انتخابات سے متعلق 6 ہزار صفحات پر فافن کی رپورٹ مشتمل تھی ، میں نے انتخابات سے متعلق رپورٹ کی سمری پڑھی تھی عام انتخابات 2013ء سے متعلق رپورٹ بھی تیار کی گئی ، 42 رپورٹ پری پول الیکشن سے متعلق تھی ، انتخابات اصلاحات سے متعلق اکتوبر 2014ء میں پی پی پی کو سفارشات بھیجیں ، عبدالحفیظ پیرزادہ نے سوال کیا کہ کیا فارم 14 کی گنتی پر فافن نے کوئی بیان دیا ؟ جس پر مدثر رضوی نے جواب دیا کہ فارم 14 پر اپنا بیان دیا ، 38274 پولنگ سٹیشنز کا الیکشن کمیشن کی اجازت سے دورہ کیا ، مبصرین کو ووٹنگ کا طریقہ کار ، گنتی اور دیگر معاملات کو دیکھنے کی اجازت تھی ۔

عبدالحفیظ پیرزادہ نے سوال کیا کہ کیا انتخابی عمل کے دوران کوئی رپورٹ مرتب کی ؟ جس پر مدثر رضوی نے جواب دیا کہ انتخابات سے متعلق 47 سے زائد رپورٹس شائع کی گئیں ، انتخابات کے بعد انتخابی عمل سے متعلقہ 4 رپورٹس مرتب کیں جو رپورٹس مرتب کی وہ انکوائری کمیشن کو جمع کروا دی ہیں ، 11 جون کو الیکشن کمیشن نے پریس ریلیز جاری کی جس میں فارم 15 سے 17 تک بتایا گیا ، قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122 کی رپورٹ بھی ہم نے بنائی ، عبدالحفیظ پیرزادہ نے سوال کیا کہ انتخابات کے بعد کسی حکومتی اہلکار یا سیاسی شخص سے کوئی دھمکی ملی ؟ مدثر رضوی نے جواب دیا کہ کسی بھی حکومتی اہلکار یا سیاسی شخصیت کی کوئی فون کال یا دھمکی نہیں ملی ، سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی این اے 122 کی رپورٹ سے متعلق فون کال آئی تھی ، انہوں نے فون پر این اے 122 سے متعلق فافن کی رپورٹ پر برہمی کا اظہار کیا ۔

انہوں نے مزید کہا کہ 2013ء کے انتخابات میں 40 ہزار مبصرین شریک تھے ، این اے 119 کے ریٹرننگ افسران کی معلومات کیلئے رابطہ کیا لیکن معلومات نہیں ملیں ، قومی اسمبلی کے 161 حلقوں کیلئے96 ہزار صفحات پر مشتمل رپورٹ بنائی ، حفیظ پیرزادہ نے سوال کیا کہ کیا بلوچستان کیلئے الیکشن کمیشن کی کوئی پولنگ سکیم نہیں تھی ، کیا سیکشن 8 کے تحت آپ کو بلوچستان کی سکیم تک رسائی تھی ، مدثر رضوی نے جواب دیا کہ ڈرافٹ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر تھا وہیں سے لیا ، 1993ء سے انتخابات کے معاملات سے منسلک ہوں ، 2008کے انتخابات میں 200 سے زائد مبصرین کی خدمات حاصل کی گئی تھیں ، تحریک انصاف کے وکیل کی طرف سے گواہ پر جرح مکمل ہونے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے وکیل شاہد حامد نے جرح کا آغاز کرتے ہوئے پوچھا کہ جب ایاز صادق کی آپ کو کال آئی تو کیا وہ اس وقت سپیکر قومی اسمبلی تھے ؟ مدثر رضوی نے جواب دیا کہ جب ایاز صادق کا مجھے فون آیا اس وقت وہ سپیکر نہیں تھے ، مدثر رضوی نے شاہد حامد کی جرح کے جواب میں بتایا کہ فافن نے 2013کے انتخابات میں 264 حلقوں کے نتائج تیار کیے ، 218 حلقوں کے نتائج الیکشن کمیشن کے مطابق جبکہ 18 میں ہارنے والے امیدوار کی پوزیشن میں کچھ فرق آیا ، فافن کو حکومت کی طرف سے کوئی امداد نہیں ملتی، فافن ٹرسٹ کے طور پر بنائی گئی جو ٹیکس ادا نہیں کرتی ، غیر سرکاری تنظیم ہے ، فافن کی فنڈنگ امریکہ ، برطانیہ دیگر یورپی ممالک سے آتی ہے ، انتخابات 2013ء کے بعد میرے خلاف لاہور میں 10 اور رحیم یار خان میں 2 مقدمات درج کرائے گئے ۔

دوران سماعت چیف جسٹس ناصر الملک نے مدثر رضوی کو کمیشن کی کارروائی کی تفصیلات دینے سے روکتے ہوئے ہدایت کی کہ کمیشن کی کارروائی پر کسی سے بحث نہ کی جائے ۔ الیکشن کمیشن کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے مدثر رضوی پر جرح کرتے ہوئے کہا کہ فافن کی جمع کرائی گئی رپورٹ اور شائع کی گئی رپورٹ میں تضاد ہے ، فافن کی دستاویزات اور رپورٹس میں تضاد دلائل سے واضح کروں گا ، 13 مئی کو فافن نے ایک پریس ریلیز جاری کی ، 14 مئی کو فافن کو اس پریس ریلیز پر وضاحت کرنا پڑی ۔

جس پر مدثر رضوی نے کہا کہ دوسرا اعلامیہ پہلے اعلامیہ میں غلطی کی بنا پر جاری کیا گیا ، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ریٹرننگ افسروں کی جانب سے بیلٹ پیپرز کی ڈیمانڈ کا ریکارڈ موجود ہے ، انتخابات سے متعلق فارم 15 ووٹوں کے تھیلوں میں ہوں گے ، جسٹس امیر حانی نے ریمارکس دیئے کہ انتخابی فارم کی کاپیاں صوبائی الیکشن کمیشن کو بھجوائی جاتی ہیں ،