سینٹ اجلاس؛ گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس 2015ء کا بل کثرت رائے سے پاس کرلیا گیا،اپوزیشن کا واک آوٹ

بدھ 20 مئی 2015 22:27

سینٹ اجلاس؛ گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس 2015ء کا بل کثرت رائے سے پاس ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 20مئی۔2015ء) سینٹ میں گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس 2015ء کا بل کثرت رائے سے پاس کرلیا گیا ہے ، بی این پی ، (ق) لیگ ، ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کا سینٹ میں بل پاس ہونے پر واک آؤٹ ، بدھ کے روز وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے سینٹ میں گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس 2015ء کا بل کی تحریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ گیس انفراسٹرکچر ترقیاتی محصول عائد کرنے اور وصول کرنے کا بل ملکی معیشت کیلئے فائدہ مند ہے اسے قومی اسمبلی سے پاس کروایا جاچکا ہے اور اب اس کی تحریک سینٹ میں پیش کی گئی ہے جس کے بعد اراکین سینٹ نے بحث کا آغاز شروع کردیا ۔

بحث کے دوران ایم کیو ایم کے سینیٹر طاہر مشہدی نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل آرٹیکل 154کی خلاف ورزی ہے اوراس سے صوبوں کی خود مختاری کو نقصان پہنچے گا اس بل کی مکمل مخالفت کرتے ہیں پی ٹی آئی کے سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ بل پر خیبر پختونخواہ سمیت سندھ کے بھی تحفظات ہیں یہ بھی گیس انفراسٹرکچر کیلئے نہیں بلکہ صرف ریونیو اکٹھا کرنے کا ذریعہ ہے ہمیں اس بل کی ضرورت نہیں ہے ہم اس بل کی مخالفت کرتے ہیں بلکہ ہمارا صوبہ خود درآمد کرتا ہے ۔

(جاری ہے)

سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ مختلف ملکوں کو پاک ایران گیس پائپ لائن کو تعمیر کرنے کے حوالے سے فنانس کا کہا گیا لیکن تمام نے مخالفت کردی ہماری پارٹی سمیت جو اپوزیشن پارٹیوں کے تحفظات دور کرنے کیلئے حکومت ایک میکنزم تلاش کرے ۔ سینیٹر عثمان سیف اللہ نے اس موقع پر کہا کہ کبھی کبھی سیاست سے بالاتر ہوکر فیصلے کرنے پڑتے ہیں اصل میں یہ ایک گیس انفراسٹرکچر سیس ایک ٹیکس ہے جو لاگو کیا جارہاہے لیکن حکومت نے پہلے ٹیکسز حاصل کرنے کے اقدامات نہیں کئے جس سے ہماری معیشت کمزور ہے شہریوں کو ریاست کی جانب سے وہ حقوق نہیں مل رہے جو انہیں ملنے چاہیں ایران سے گیس حاصل کرنے کی بجائے حکومت خیبر پختونخواہ میں گیس کے ذخائر کیوں نہیں ڈھونڈتی ہے ہمیں صوبائی امتیاز سے بالاتر ہوکر ملکی مفاد کے بارے میں سوچنا ہوگا سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ یہ بل ملکی سلامتی کیلئے خطرہ ہے اور آج جن صوبوں میں قومیت کے فرق پائے جارہے ہیں یہ ان میں مزید امتیاز بڑھائے گا پنجاب بڑے بھائی ہونے کا ثبوت دے اور اس امتیاز کو ختم کرے ۔

حقیقت میں جے آئی سی صرف پنجاب کو چاہیے اور اس سے وفاق کو مستقبل میں بہت نقصان اٹھانا پڑے گا یہ بل ہمارے صوبے کیخلاف ہے اس کی مخالفت کرتے ہیں لیکن اگر بل کو پاس کرنا ہے تو پھر اس کیلئے سینٹ کی کمیٹی تشکیل دی جائے ۔ سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ اس بل کی مخالفت کرتے ہیں یہ بل صرف ایل این جی کیلئے پاس کیا جارہا ہے اور ایسے لوگ ابھی بھی موجود ہیں جو بذات خود اس سیس کو پورا کرسکتے ہیں جو سینیٹر اس بل کیخلاف نہیں بولے گا وہ اپنے صوبے کے ساتھ گناہ کرے گا پہلے سرچارج 100روپے تھا اب بڑھا دیا گیا ہے سینٹ کی کمیٹی گیس انفراسٹرکچر سیس بل 2015ء کیلئے تشکیل دی جائے کیونکہ یہ آئین کیخلاف ہے ۔

سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ یہ بل آئین کے آرٹیکل 154سمیت مزید چار آرٹیکلز اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے جو پنجاب کا بہت بڑا منصوبہ ہے اور ان کا انفراسٹرکچر فاٹا ، خیبر پختونخواہ اور سندھ کے پسماندہ علاقوں کیلئے استعمال نہیں ہوگا پنجاب اتنا غریب بھی نہیں کہ وہ دوسرے صوبوں کے گلے کاٹ کر اپنی گیس پوری کرے مگر جب ہمارے صوبوں کو آٹے کی ضرورت ہوتی ہے تو اس وقت ٹرکوں کو اٹک میں روک دیا جاتا ہے یہ بل ہمارے لئے عذاب الٰہی ہوگا ۔

حکومت بتائے کہ آخر اس ٹیکس کی مد میں حاصل کئے جانے والے پیسے کہاں استعمال ہونگے کیونکہ شفافیت تو کسی ادارے نہیں ہے کچھ وقت کیلئے میٹرو بس منصوبے کو روک دیں اور دوسرے صوبوں کے گلے کو نہ کاٹا جائے ۔ سینیٹر خوش بخت شجاعت نے کہا کہ منافقانہ طریقے سے یہ بل قومی اسمبلی سے پاس کیا گیا اور اگر سینٹ سے بھی یہ بل پاس ہوگیا تو پھر ایوان بالا سے یہ سفاکانہ فیصلہ ہوگا کیونکہ ہم ایسے بل کو پاس کرنے جارہے ہیں جو آئین کیخلاف ہے اور صوبوں کے درمیان فیصلے اور امتیاز کو بڑھا دے گا سندھ 70فیصد گیس فراہم کرتا ہے جس میں سے 64فیصد پنجاب کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہمیں پانی تک فراہم نہیں کیا جاتا اور اتوار کے روز گیس کو بھی بند کردیا جاتا ہے سندھ احساس محرومی کا شکار ہورہا ہے اور سندھ کی صنعت کو نمایاں طور پر ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا جارہا ہے ۔ سینیٹر شاہی سید نے کہاکہ آخر اس بل کو قومی اسمبلی کے بعد سینٹ سے اتنی جلدی پاس کرانے کی کیا ضرورت ہے اور سب سے زیادہ سرچارج سی این جی میں چارج ہورہے ہیں میٹرو بس منصوبہ حکومت کو نظر کیوں نہیں آتا اگر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا ایک فیصد ٹیکس بڑھا دیا جائے تو پھر یہ سات فیصد پورا ہوجائے گا جبکہ سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ ہم واک آؤٹ کرتے ہیں جس پر ایم کیو ایم ، عوامی نیشنل پارٹی اور پی ٹی آئی کے ارکان نے علامتی واک آؤٹ کیا ۔

سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہم نے جے آئی ڈی سی کے بل میں صوبہ سندھ کے تمام انڈسٹریز سے مشاورت کے بعد بل میں ترامیم کرائی ہیں اور پھر اسے قومی اسمبلی میں پاس کیا ترامیم پر عملدرآمد ہم کرائینگے اگر یہ ٹیکس صرف پاک ایران منصوبے کیلئے لگایا جائے گا تو پھر یقین دہانی کرائی جائے کہ واقعی میں اس ٹیکس اسی منصوبے کیلئے ہی استعمال کیاجائے گا ہم ایسے کسی بھی فیصلے کے حق میں ہیں جس میں پاکستان کو فائدہ ہو ہم نے صنعتکاروں سے مشاورت کے بعد ہی بل کو منظور کیا ۔

سینیٹر سعید کاکڑ نے کہا کہ پشتون قوم 70فیصد اور فاٹا کے 90فیصد لوگ گیس سے ناواقف ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے گیس کی مد میں ہمار ے ساتھ ناانصافی کی ہے ہمارے 26اضلاع میں گیس نہیں ہے نوے فیصد ہمارا صوبہ بلوچستان گیس سے محروم ہے اور پھر ملازمتوں پر بھی ہمارے صوبے کے لوگوں کو بھرتی نہیں کیاجاتا گیس اور اقتصادی راہداری پنجاب لوگوں کیلئے ہے لیکن ٹیکس پورے پاکستان کیلئے لاگو کیا جارہا ہے نقصان ہمارے حصے میں اور فائدہ صرف پنجاب کے حصے میں آتاہے لیکن اب ہمیں ہمارا حق دینا ہوگا اور بلوچستان کے تمام اضلاع کو گیس فراہم کرنا ہوگی پنجاب سے نفرت نہیں لیکن پنجاب کی طرح دوسرے صوبوں اور فاٹا کو ترقی دینی چاہیے ۔

سینیٹر سسی پلیچو نے کہا جب بھی وزیر خزانہ کی آئی ایم ایف سے میٹنگ ہوتی ہے تو ایک نیا ٹیکس نتیجے کے طور پرسامنے آتا ہے قومی اثاثوں کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے سالوں بعد بھی چھوٹے صوبوں پر سوچ نہیں بدلی ہے سندھ کی 70فیصد گیس کی پیداوار ہے اور 40فیصد مشکل سے استعمال ہوتی ہے لیکن پھر بھی ہمیں سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں ہم خسارے میں نہیں بلکہ سرپلس میں ہیں ۔

سینیٹر سردار اعظم خان نے کہا کہ اگر یہ بل پاس ہوا تو پھر یہ پنجاب کی بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا ۔ اگر پنجاب سے سرائیکیوں کو نکالا جائے تو پھر پنجاب سب سے چھوٹا بھائی ہوگا یہ پنجاب کا آخری ڈرون حملہ ہوگا یہ سیس بل آئین کے پانچ آرٹیکلز اور سپریم کورٹ کی خلاف ورزی کرتا ہے ہمارے پانی سے پنجاب کو سیراب کیاجاتا ہے پنجاب نفرتوں کو پھیلا رہا ہے حکومتی ٹیکس بل کی ممکمل مخالفت کرتے ہیں ۔

سینیٹر روبینہ عرفان نے بل پر مکمل مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس بل میں مکمل طور پر امتیاز ہے اگر پنجاب بڑا بھائی ہے تو بڑے بھائی کی طرح قربانی بھی دے بلوچستان کو اپنے حقوق دیئے جائیں چار سال سے بلوچستان گیس فراہم کررہا ہے کشمیر تک کو گیس دی گئی لیکن بلوچستان کو گیس فراہم نہیں کی گئی چھوٹے صوبوں کے اراکین اپنا ضمیر ہرگز نہ بیچے سینیٹر ڈاکٹر اشوک کمار نے کہا کہ جے آئی ڈی سی کو اب سی این جی پر لگایا جارہا ہے ہمارے پاس تو پہلے بھی صوبہ بلوچستان میں گیس نہیں ہے اور پھر ٹیکس بھی لاگو کیا جارہا ہے اس بل کی مخالفت کرتے ہیں ۔

سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا کہ یہ ٹیکس واقعی میں پاک ایران گیس منصوبے کے انفراسٹرکچر کیلئے ہے یا پھر ملک میں گیس ڈویلپمنٹ کیلئے ہے لیکن میرے تو سندھ ، بلوچستان پنجاب تینوں صوبے قرض دار ہیں جن کو 1952ء سے سوئی سے گیس فراہم کی جارہی ہے لیکن آج بلوچستان میں گیس نہیں ۔ گوادر میں اربوں روپے کی بات کی جاتی ہے لیکن اس کی سیوریج پر توجہ نہیں دی جاتی پاک ایران گیس پائپ لائن جب گوادر سے گزرے گی تو اور وہاں گیس نہیں ہوگی تو مقامی لوگوں کا ردعمل آئے گا حکومت یقین دہانی کرائے کہ بلوچستان میں تمام اضلاع کو گیس فراہم کی جائے گی ۔

بلوچستان میں پچاس سے کم سی این جی سٹیشنز ہیں پنجاب کی ایک گلی میں بیس سی این جی سٹیشنز لگے ہوئے ہیں سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ اس ٹیکس سے ہمارے صوبے کے ستر فیصد زمینداروں کو نقصان ہوگا اس بل سے ہماری بجلی اور خوراک مہنگی ہوگی اس بل پر تحفظات ہیں سینیٹر نسیمہ احسان نے کہا کہ یہ وزارت پٹرولیم کی جانب سے پیش کیا جانا والا بل مزید زہر پھیلانے کا پیش خیمہ ہوگا صوبو ں کے درمیان مزید امتیاز بڑھے گا ایسے ٹیکس لگا کر چھوٹے صوبو ں کے ساتھ استحصال بہت بڑا ظلم ہوگا بل کی مخالفت کرتے ہیں اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ بل کے حوالے سے تمام صوبوں کے ممبران نے جمہوریت کے حسن کے مطابق پارلیمانی انداز میں تحفظات پیش کئے لیکن حکومت کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے حکومت کے اس حوالے سے کان اور آنکھ کھل جانے چاہیں کہ ہر جگہ پنجاب استعمال وفاقی حکومت کیلئے تہمت بنتی جارہی ہے تمام اہم وزارتیں پنجابیوں کو دی گئی ہیں ہر غیر ملکی دورے پر اور میٹنگ میں وزیراعلیٰ پنجاب کو شامل کیاجاتا ہے آخر دوسرے صوبوں کے وزراء اعلیٰ کو غیر ملکی دوروں پر ساتھ کیوں نہیں لے جایا جاتا اگر حکومت نے آج اراکین کی تقاریر کو سنجیدگی سے نہ سمجھا تو یہ حکومت کیلئے سنگین وارننگ ثابت ہوگی ایل این جی کی قیمت کے بارے میں آج تک نہیں بتایا گیا جبکہ اقتصادی راہداری پر بھی قوم سمیت جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا یہ خیبر پختونخواہ سے ہی اقتصادی راہدراری کے روٹ گزریں گے ۔

نندی پور پاور پلانٹ میں ایم ڈی کے مطابق اٹھارہ ارب کا گھپلا ہوا ہے حکومت کہاں ہے ہم نے بل میں ترامیم پیش کی ہیں سپریم کورٹ کے بتائے ہوئے راستے پر سیس لگایا جارہا ہے کیپیٹل پاور کی شرح پر وزیر پٹرولیم ایوان کو آگاہ کرینگے جس کے بعد وزیر پٹرولیم شاہد خاقان نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ تمام اراکین اور جماعتیں بل کے حق میں نہیں ہیں لیکن واضح کردوں کہ گیس انفراسٹرکچر بل میں کوئی اضافی سیس نہیں ہے بلکہ یہ پچھلے چار سال سے حاصل کیا جارہا ہے اور پچھلے چار سالوں میں ایک سو بارہ ارب اکٹھا کیا جا چکا ہے جس سے گیس انفراسٹرکچر پر لگانا ہے ۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بل کی ضرورت سابقہ اور موجودہ حکومت کو رہی ہے جس کی سیس اور فائدہ پنجاب کو نہیں بلکہ پورے پاکستان کو ہوگا ۔ ایل این جی صرف پاور سیکٹر کی ترقی کیلئے آرہی ہے وفاقی حکومت بلوچستان کے ہر ضلعی ہیڈکوارٹر کو گیس فراہم کرے گی دو تہائی اکثریت پنجاب کی ہے اور کابینہ ہمیشہ قابلیت کی بنیاد پر منتخب ہوتی ہے صوبائیت پر کابینہ کو منتخب نہیں کیاجاتا دنیا کے کسی ملک میں پائپ گیس کا سسٹم نہیں ہے صرف پاکستان میں موجود ہے جس کی وجہ سے گیس بحران کا سامنا ہے ۔

بجلی بحران ہماری حکومت کا نہیں بلکہ ماضی کی حکومتوں کی دین ہے لیکن جلد گیس کے ذریعے لانگ و شارٹ ٹرم منصوبوں سے بجلی بحران پر بھی قابو پالیں گے امپورٹڈ گیسوں سے ہم اپنے طویل اور شارٹ ٹرم منصوبے مکمل کرسکتے ہیں بل کے ذریعے فنڈز کی ادائیگیوں کو چیک کرنے کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے حکومت تیار ہے ہر صوبے کو امپورٹڈ گیسوں کی فراہمی صارفین کو دی جائے گی سوئی ناردرن اور سدرن کے پاس اتنے فنڈز نہیں ہیں اس لئے سیس کے ذریعے پیسے حاصل کرنے کا بل پیش کیا گیا اقتصادی راہداری کے منصوبہ پاکستان کی 67سالہ تاریخ کا ریکارڈ ہے اور اس منصوبے کا 75فیصد پنجاب میں نہیں ہے ایل این جی کی قیمت لیکوڈ اور فرنس آئل سے کم ہے اس میں کوئی چھپانے کی بات نہیں ہے ہماری حکومت شفاف دار ہے کسی بھی مسئلے پر ایوان کی کمیٹی بنائی جائے تمام حقائق کو پیش کرینگے لیکن بدقسمتی سے ملک لوٹنے والے آ ج کمپنیوں کے مالک بن گئے ہیں شاہد خاقان نے اراکین سینٹ سے درخواست کی ہے کہ یہ بل ملک کی معیشت کیلئے فائدہ مند ہے اس کی سپورٹ کی جائے جس کے بعد سینٹ میں گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس بل 2015ء کو کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا اس دوران ایم کیو ایم کے سینیٹر طاہر مشہدی نے بل نا منظور کے نعرے لگاتے ہوئے سینٹ سے واک آؤٹ کیا تو پی ٹی آئی ، (ق) لیگ اور بی این پی کے اراکین نے بھی سینٹ سے واک آؤٹ کرلیا ۔

متعلقہ عنوان :