علمائے حق کا احترام کرتا ہوں،میرے کسی لفظ سے دل آزاری ہوئی تو معافی چاہتاہوں ، میری تقریر میں ایسے لوگوں کے بارے میں تھی جو خودکژ حملہ آور پیداکرتے ہیں ، اگر یہ بات کرنا جرم ہے تویہ کرتارہوں گا،وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کاسینیٹ اجلاس میں سینیٹر عطاء الرحمان کے نکتہ اعتراض پر وضاحتی بیان، وفاقی وزیر اطلاعات کے بیان سے ملک بھر میں مدارس کے لاکھوں اساتذہ و طلباء کی دل آزاری ہوئی، حکومت اپنا رویہ بدلے ، وزیر اطلاعات بیان کی وضاحت کریں، سینیٹر مولانا عطاء الرحمان کا نکتہ اعتراض

پیر 18 مئی 2015 21:32

علمائے حق کا احترام کرتا ہوں،میرے کسی لفظ سے دل آزاری ہوئی تو معافی ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔18 مئی۔2015ء) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹرپرویز رشید نے کہا ہے کہ علمائے حق کا دل کی گہرائیوں سے احترام کرتا ہوں، میرے کسی لفظ سے ان کی دل آزاری ہوئی تو معافی کا خواستگار ہوں، اپنی تقریر میں ان لوگوں کو اور ایسی تعلیم کو جہالت کہا تھا جو خود کش حملہ آور پیدا کرتی ہے، اگر قوم کے بچوں کو خود کش حملہ آور بنانے والوں کے خلاف بولنا میرا جرم ہے تو یہ جرم باربار کرتا رہوں گا، شاید ہم اپنے بچوں کو امن، بھائی چارے اور دوستی کا سبق دینا بھول گئے ہیں، مولانا عطاء الرحمن اور پروفیسر ساجد میر ایک دوسرے کے مدرسوں میں تو داخل نہیں ہو سکتے جبکہ آج میرے خلاف اکٹھے ہو گئے ہیں۔

وہ پیر کو یہاں سینیٹ کے اجلاس میں سینیٹر مولانا عطاء الرحمان کے نکتہ اعتراض پر وضاحتی بیان دے رہے تھے۔

(جاری ہے)

پیر کو سینیٹ کے اجلاس میں جے یو آئی (ف)کے سینیٹر مولانا عطاء الرحمن نے کہا کہ آٹھ دس روز قبل وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے دینی مدارس، اذان اور دینی کتابوں بارے جو اپنی رائے کا اظہار کیا، اس سے ملک بھر میں ہزاروں معزز مدارس کے لاکھوں اساتذہ و طلباء کی دل آزاری ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اطلاعات نے مدارس کو جہالت کی یونیورسٹیاں کہااور پانچ وقت کی اذان کے حوالے سے بھی تضحیک آمیز الفاظ استعمال کئے، اگر ایک مسلمان نماز نہ پڑھے تو اور بات ہے جبکہ اگر نماز پر تبصرہ کرے تو ایمان سے فارغ ہو جاتا ہے۔ ہم نجی شعبے میں بچوں کو مفت تعلیم فراہم کر رہے ہیں، درحقیقت ہم این جی اوز کا کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کوئی ایک مدرسہ بتائے کہ جس کا تعلق دہشت گردی سے ہو، حکومت اس روئیے کو بدلے اور وزیر موصوف وضاحت کریں، اس پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا کہ یقیناً ایک دوست کی حیثیت سے اور ان کے بڑے بھائی و والد محترم کے پیروکار کی حیثیت سے مولانا عطاء الرحمان نالاں ہوں گے، ان کی ناراضگی ختم کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں، اگر آج مفتی محمود حیات ہوتے تو مجھے خود اپنی صفائی دینے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

انہوں نے کہا کہ میں نے یہ الفاظ ضرور استعمال کئے مگر ان لوگوں کیلئے استعمال کئے جنہوں نے مولانا فضل الرحمن پر چار قاتلانہ حملے کئے اور ملک میں دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے، میں نے تعلیمی نصاب پر بات کی تھی اور کہا کہ ہم اپنے بچوں کو امن و بھائی چارہ اور دوستی کا سبق دینابھول گئے ہیں، جس کی وجہ سے نہ عوام محفوظ ہیں نہ علمائے حق اور نہ دینی مدارس پاکستان میں محفوظ ہیں، ہم آج سنگینوں کے سائے میں نماز پڑھتے ہیں جبکہ بھارت، برطانیہ میں بغیر کسی گن مین کی نماز ادا کر سکتے ہیں یہ خدشہ نہیں ہو گا کہ وہاں خود کش حملہ نہیں ہو گا، میں نے اس تعلیم کو جہالت کہا تھا جو خود کش حملہ آور بناتی ہے، اگر اس پر کوئی مجھے کفر کے فتوے دیتا ہے تو دیتا رہے امام ابو حنیفہ کے ساتھ بھی یہی کیا تھا، اگر خود کش حملہ آور بنانے والوں کے خلاف بولنا میرا جرم ہے تو میں قبول کرتا ہوں، آپلگائیں عدالت اور چلائیں مقدمہ مجھ پر، مگر جو ردعمل آیا اس کے نتیجے میں صرف میری زندگی نہیں میری بیٹیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا گیا ہے، جن لوگوں نے ایسا کیا میں ان تمام لوگوں کو معاف کرتا ہوں، میں علمائے حق کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے احترام کرتا ہوں مگر جنہوں نے پاکستان میں دہشت گردی کی تعلیم دی اور قتل و غارتگری کا کھیل رچایا ان سے اختلاف کرتا ہوں۔

مولانا عطاء الرحمن اور پروفیسر ساجد میر ایک دوسرے کے مدرسوں میں تو داخل نہیں ہوتے مگر میرے خلاف دونوں اکٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دین کی خدمت کرنے والے علمائے حق کے پیروں کا پانی بھی پینے کیلئے تیار ہوں اگر آپ کی دل آزاری ہوئی تو معافی کا خواستگار ہوں۔