الیکشن ٹربیونل نے پی پی 178 میں مبینہ دھاندلی بارے بیرسٹر شاہدمسعود کی درخواست مسترد کر دی، غیر تصدیق شدہ ووٹوں کو جیتنے والے امیدوار کے ووٹوں سے خارج بھی کر دیا جائے تو بھی اس سے انتخابی نتائج پر کوئی اثرنہیں پڑے گا ‘ٹربیونل کا حکم

اتوار 10 مئی 2015 22:42

الیکشن ٹربیونل نے پی پی 178 میں مبینہ دھاندلی بارے بیرسٹر شاہدمسعود ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔10 مئی۔2015ء) مئی 2013ء کے عام انتخابات میں پنجاب اسمبلی کے حلقہ PP178قصور4میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے حوالے سے درخواست کو الیکشن ٹریبونل نے اس بنا پر مسترد کر دیا کہ اگر غیر تصدیق شدہ ووٹوں کو جیتنے والے امیدوار کے ووٹوں سے خارج بھی کر دیا جائے تو بھی اس سے انتخابی نتائج پر کوئی اثرنہیں پڑے گا کیونکہ اس کے باوجود کامیاب ہونے والے امیدوار کو رنر اپ کے مقابلے میں تقریباً چودہ ہزار ووٹوں کی واضح برتری حاصل ہوگی۔

الیکشن ٹریبونل میں دائر درخواست میں کامیاب امیدوار ملک احمد سعید سے شکست کھانے والے امیدوار بیرسٹر شاہدمسعود نے کہاہے کہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر بوگس اور غیر تصدیق شدہ ووٹوں کی موجودگی کے باعث انتخابی نتائج مشکوک ہو گئے ہیں۔

(جاری ہے)

درخواست گزار بیرسٹر شاہدمسعودنے موقف اختیارکیا تھا کہ اگرچہ اُن کے مدمقابل امیدوار ملک احمدسعیدکو34,335ووٹوں کے ساتھ فاتح قرار دیا گیا لیکن مدمخالف امیدوار کے حاصل کردہ ووٹوں میں سے 18988ووٹوں پر جانچ پڑتال کے دوران الیکشن کے عملے بشمول پریذائڈنگ افسر/اسسٹنٹ پریذائڈنگ افسر کی مہر اور دستخط نہیں پائے گئے جس کی وجہ سے ان ووٹوں کی اصابت مشکوک ہو گئی ہے۔

اسی طرح 1359پرووٹ نمبر اور 990پر مہر موجود تھی تاہم پریذائڈنگ افسران کے دستخط موجود نہیں تھے۔ تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ سلطان احمد کی زیرقیادت ہونے والی تحقیق میں پولنگ سٹیشن نمبر 70اور 268کے ووٹوں کے تھیلوں سے برآمد ہونے والے ووٹوں میں سے بالترتیب137اور 20جعلی ووٹ برآمد ہوئے۔ اس طرح حلقے کے کل ووٹوں میں سے مجموعی طور پر 21454ووٹ کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

غیر تصدیق شدہ ووٹوں کی اصابت کے لیے پولنگ عملے نے آ ر اوپی اے کے سیکشن33(1)،1976کے تحت شناختی کارڈز نمبر کا اندراج کیا گیا ۔ ووٹنگ پروسیجرکے سیکشن33(2)کی شق بی، سی، سی سی، ڈی 3سی، ڈی، 5اے، بی ،سی، کے تحت مذکورہ بالامعاملے میں ووٹنگ اور ووٹنگ کی اصابت کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم یہ بات ریکارڈ کاحصہ ہے کہ 18988ووٹوں پر پریذائٹنگ افسران کی مہرو دستخط موجود نہیں۔

پولنگ افسران کی جانب سے 1359جعلی ووٹوں کو بھی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایاگیا۔ الیکشن ٹریبونل کے مطابق ووٹ نمبر اورشناختی کارڈنمبر کے اندراج کے بعد قانونی تقاضے کس حد تک پورے ہو جاتے ہیں تاہم 18988ووٹوں کو درست قرار دینے کے لیے انگوٹھا کا نشان ہونا ضروری ہے۔ تحقیق کے دوران یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ غیرتصدیق شدہ قرار دیے جانے والے 18988ووٹوں کے لیے جاری کیے جانے والے بیلٹ پیپرز کی پشت پر مہر اور دستخط پائے گئے ہیں جو آراو پی اے کی شق 33(2)(d) ،1976کے تحت ہے۔

ٹریبونل نے 1999ایس سی ایم آر سے اس بابت سوال کیا ہے۔ اگرچہ درخواست گزار کی طرف سے کمیشن / TW-2 کی رپورٹ بارے مبینہ بے ضابطگیوں کی نشان دہی نہیں کی گئی تاہم تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آنے والی رپورٹ میں یہ معلوم ہوا ہے کہ پولنگ سٹیشن نمبر PP-70(NA-20)، پولنگ سٹیشن نمبر PP-96(NA-237)اور PP-110(NA-251)کے پولنگ بیگوں سے جعلی ووٹ برآمد نہیں ہوئے۔تاہم پولنگ سٹیشن نمبر PP-70(NA-211)سے 11جعلی ووٹ، PP-76(NA-217)سے 71بغیر انگوتھے کے ووٹ برآمد ہوئے جب کہ صوبائی اسمبلی کے حلقہ PP-72(NA-213)کے 75ووٹوں پر ووٹ دہندہ کے شناختی کارڈ نمبر درج نہیں کیے گئے تھے۔

مندرجہ بالا مذکورہ مختلف کیٹگریز کے لیے جاری کردہ بیلٹ پیپرزکے بعد ووٹ کی اصابت کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ درخواست گزار اور انسپیکشن ٹیم کی رپورٹ میں یہ واضح نہیں کہ پول ہونے والے ووٹوں میں 2059کس کے حق میں پول کیے گئے تھے۔ اگر بحث میں یہ ثابت ہو جاتا ہے مذکورہ ووٹ رنر اپ امیدوار کے حق میں پول کیے گئے تو اس کے باوجود انتخاب کے نتائج پرکوئی اثرات نہیں پڑیں گے کیونکہ 2059ووٹ اگرجیتنے والے امیدوار کے حاصل کردہ ووٹوں میں سے نکال بھی دیے جائیں تو پیچھے 33168ووٹ بچتے ہیں جو دوسرے نمبر پرآنے والے (درخواست گزار) کے 17837ووٹوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ مندرجہ بالا وجوہات کی وجہ سے ٹریبونل نے درخواست گزار کی درخواست کو خارج کردیا۔

متعلقہ عنوان :