کے ایس بی بینک کے انضمام کیلئے چار بینکوں نے دلچسپی ظاہرکی تھی، چیف ترجمان اسٹیٹ بنک

عسکری بینک، بینک اسلامی، سندھ بینک اور جے ایس بینک شامل ہیں، بینک اسلامی کے سوادیگر تینوں بینک انضمام کے قواعد کو پورا نہ کرسکے اسٹیٹ بینک ملک میں بینکاری شعبے کو مستحکم کرنے کے عزم پر قائم ہے، اسٹیٹ بینک کو کے اے ایس بی بینک کے ڈپازٹرز کی رقم کے تحفظ اور انہیں فوری ادائیگی کے حوالے سے تشویش ہے، بینک کو کسی کمزور سرمایہ کار کے حوالے کرنے سے ایک اور التوائے قرض کا عمل ہوسکتا ہے، موجودہ حالات میں بینک اسلامی کے ساتھ انضمام ہی ایک عملی راستہ رہ گیا ہے جس میں بینک ڈپازٹرز کا مفاد محفوظ ہوگا، اسٹیٹ بینک ڈپازٹرز کے مفاد کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گا چاہے

جمعرات 30 اپریل 2015 22:44

کے ایس بی بینک کے انضمام کیلئے چار بینکوں نے دلچسپی ظاہرکی تھی، چیف ..

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 30اپریل۔2015ء) کے ایس بی بینک کے انضمام کیلئے چار بینکوں عسکری بینک، بینک اسلامی، سندھ بینک اور جے ایس بینک نے دلچسپی ظاہر کی تھی تاہم بینک اسلامی کے سواء دیگر تینوں بینک انضمام کے قواعد کو پورا نہ کرسکے، کے ایس بی بینک کے بینک اسلامی میں انضمام کا معاملہ وزارت خزانہ کے پاس ہے اور وہاں سے منطوری آنے کے بعد ہی ان بینکوں کا انضمام مکمل ہوپائے گا، اسٹیٹ بینک عوام کو یقین دلاتا ہے کہ وہ ملک میں بینکاری شعبے کو مستحکم کرنے کے عزم پر قائم ہے، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بینکاری دوسرے اقسام کے کاروبار سے مختلف اور حساس ہے، کسی ادارے کو خریدنے کے لئے محض نقد موجود ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ادارے کو ایسے افراد کے حوالے کر دیا جائے جو اس ادارے کو چلانے کے لئے موزوں نہیں، اسٹیٹ بینک کو کے اے ایس بی بینک کے ڈپازٹرز کی رقم کے تحفظ اور انہیں فوری ادائیگی کے حوالے سے تشویش ہے، عوام کا اعتماد رکھنے والا اچھا سرمایہ کار ایک مستحکم بینک کے لئے ضروری ہوتا ہے، بینک کو کسی کمزور سرمایہ کار کے حوالے کرنے سے ایک اور التوائے قرض کا عمل ہوسکتا ہے، موجودہ حالات میں بینک اسلامی کے ساتھ انضمام ہی ایک عملی راستہ رہ گیا ہے جس میں بینک ڈپازٹرز کا مفاد محفوظ ہوگا اور اس کا مسئلہ پائیدار بنیادوں پر حل ہوسکے گا، اسٹیٹ بینک ڈپازٹرز کے مفاد کے تحفظ کے لئے ہر ممکن اقدامات کرے گا چاہے وہ کے اے ایس بی بینک ہو یا کوئی اور بینک۔

(جاری ہے)

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے چیف ترجمان عابد قمر نے مرکزی بینک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سید عرفان علی اور ڈائریکٹرارشد محمود بھٹی کے ہمراہ جمعرات کو یہاں مرکزی بینک میں کے ایس بی بینک کے حوالے سے ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ چینی سرمایہ کاروں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ معاملہ فقط 50 ملین ڈالر یا 100ملین ڈالر موجود ہونے کا نہیں بلکہ مختلف علاقوں کی لازمی شرائط کو پورا کرنے اور ان کا احترام کرنے کا ہے۔

اسٹیٹ بینک پاکستان میں بیرونی براہ راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کی آمد کی اہمیت سمجھتا ہے لیکن ڈپازٹر کے مفاد کو تحفظ دینے کی ذمہ داری پر سمجھوتہ نہیں کرسکتا (اس معاملے میں 150,000سے زائد ڈپازٹرز کے 57 ارب روپے داؤ پر لگے ہیں)۔ عابد قمر نے کہا کہ مالی شعبے کے محافظ کی حیثیت سے اسٹیٹ بینک ہمیشہ ڈپازٹرز کے مفاد کو تحفظ دینے اور مالی استحکام کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں رہتا ہے، اسٹیٹ بینک کو کے اے ایس بی بینک کے ڈپازٹرز کی رقم کی فکر ہے اور وہ یقینی بنانا چاہتا ہے کہ ڈپازٹرز کسی رکاوٹ کے بغیر اپنے کھاتے استعمال کرسکیں، تصفیے میں کوئی تاخیر ہوئی تو ڈپازٹرز کا مفاد نیز مارکیٹ کا اعتماد مخدوش ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ڈپازٹرز کے مفاد کا تحفظ کرنا اور بینکاری نظام کے استحکام کو یقینی بنانا بینک دولت پاکستان کے مینڈیٹ کا حصہ ہے، بینکاری لائسنس کے اجرا کا مطلب کسی ادارے کو یہ اجازت دینا ہے کہ وہ عوام سے ڈپازٹس لے کر قرض دینے میں استعمال کرے۔ انہوں نے کہا کہ عوام سے پیسہ وصول کرنے کے اختیار کے ساتھ ذمہ داری بھی آتی ہے، اسٹیٹ بینک بطور احتیاطی اقدام اور مینڈیٹ کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے بینک میں ہر ممکنہ سرمایہ کار کی جو ایک خاص شرح سے زیادہ سرمایہ کاری کرنا چاہے (جو اس وقت 5 فیصد ہے) موزونیت اور مناسبت کو جانچتا ہے تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جاسکے کہ سرمایہ کار اپنی مالی ذمہ داریاں پوری کرسکتا ہے اور اسے عوام کے ڈپازٹس جمع کرنے کا لائسنس دیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کے اے ایس بی بینک کے معاملے میں اسٹیٹ بینک یہ ارادہ رکھتا ہے کہ 150,000سے زائد ڈپازٹرز کے 57 ارب روپے کی ادائیگی کو یقینی بنائے اور تمام متعلقہ فریقوں خصوصاً ڈپازٹرز کے بہترین مفاد میں اور تمام بینکاری نظام کی پائیداری کی خاطر بینک کا مناسب طور پر تصفیہ کرے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بینک کی ادائیگی قرض کی کمزور صورت حال اور نگرانی کے حوالے سے سنگین خلاف ورزیوں کے پیش نظر اسٹیٹ بینک نے بینک پر بعض پابندیاں عائد کیں اور اسپانسرز کو سرمایہ داخل کرنے کی ہدایت کی تاہم نہ تو اسپانسرز نے سرمایہ داخل کیا اور نہ ہی تصفیے کی سنجیدہ کوششیں کی گئیں۔

اس کے بجائے بینک اسٹیٹ بینک کی عائد کردہ پابندیوں پر عمل کرنے میں ناکام رہا۔ نتیجے کے طور پر 3 جون 2013ء کو اسپانسرز اور بورڈ اف ڈائریکٹرز کو اسٹیٹ بینک کے ساتھ ایک حلف نامے پر دستخط کرنے کی ہدایت کی گئی تاکہ ضوابطی شرائط پوری کی جاسکیں اور مئی 2014ء تک سرمائے کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے اسپانسرز اور بورڈ آف ڈائریکٹرز، اسٹیٹ بینک کی جانب سے اجلاسوں میں اور تحریری طور پر بارہا اصرار کے باوجود سرمایہ داخل کرنے کی اہم ذمہ داری کو پورا کرنے میں ناکام رہے۔

آخر انہیں تجویز دی گئی کہ اس بینک کو کسی بڑے بینک میں ضم کردیں لیکن وہ ایسا کرنے میں بھی ناکام رہے۔ 2014ء میں کے اے ایس بی بینک کو اسٹیٹ بینک کی طرف سے موقع دیا گیا کہ ملک کی مارکیٹ میں جہاں مناسب ہو کسی اور بینک کے ساتھ ضم ہوجائے تاہم بینک اسپانسرز یہ عمل کرنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے کہا کہ سرمائے کی اساس کم ہونے کے علاوہ بینک کے نظم و نسق کے امور میں بھی سنگین مسائل دیکھے گئے جیسے بینک کے روز مرہ معاملات میں اسپانسرز کی شمولیت جو متعلقہ ضوابطی ہدایات کی خلاف ورزی ہے۔

بینک نے اپنی پارٹیوں منسلکہ اداروں سے ایسی شرائط و ضوابط پر کاروبار بھی کیا جو اس کے ڈپازٹرز کے مفاد کے لئے نقصان دہ تھیں۔ اسپانسرز اور انتظامیہ کی خودغرضانہ روش سے بینک کی سرمائے کی اساس، اثاثوں کا معیار اور آمدنی لانے کی استعداد خاصی متاثر ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے پانچ برسوں میں مسلسل نقصانات کے باعث کے اے ایس بی بینک کی ایکویٹی خاصی کم ہوچکی تھی اور کم از کم سرمائے کی شرط سے بہت نیچے تھی، اس کی کفایت سرمایہ بھی 30 ستمبر 2014ء کو منفی ہوچکی تھی جس کی بنا پر تکنیکی طور پر بینک دیوالیہ ہوگیا تھا۔

بینک کی کمزور مالی صحت اور کم از کم سرمائے کی شرط پورا کرنے میں اسپانسرز کے قاصر ہونے کی بنا پر اسٹیٹ بینک کو ڈپازٹرز اور دیگر متعلقہ فریقوں کے بہترین مفاد میں وفاقی حکومت سے بینک پر التواء کے نفاذ کی درخواست کرنی پڑی۔ وفاقی حکومت نے بینک پر التواء نافذ کیا اور اسٹیٹ بینک کو یہ ہدایت بھی کی کہ قانون کے مطابق تشکیل نوانضمام کی اسکیم تیار کرے۔

انہوں نے کہا کہ 2010ء میں کے اے ایس بی نے بطور گروپ تشکیل نو کی ایک تجویز پیش کی جس میں ایم/ایس ایشیا انٹرنیشنل فنانشیل لمیٹڈ (اے آئی ایف ایل) (ایک چینی کمپنی) کو گروپ ہولڈنگ کمپنی یعنی کے اے ایس بی فنانس لمیٹڈ میں فنڈ کے ادخال پر 50 فیصد شیئرہولڈنگ دی جائے گی، ان فنڈزکو بینک میں سرمائے کے ادخال کے لئے استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ گروپ کی بعض کمپنیاں خریدنے کے لئے استعمال کیا جانا تھا۔

اسٹیٹ بینک کو اس وقت حیرت ہوئی جب 2014ء میں یہ بتایا گیا کہ اے آئی ایف ایل کی ملکیت کی ساخت تبدیل ہوگئی ہے اور اب اسے پیئرڈوس (خریدار) چلا رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی منظوری کے بغیر ملکیت کی مذکورہ منتقلی اسٹیٹ بینک کے موجودہ ضوابط کے خلاف تھی تاہم پیئرڈوس جو ممکنہ استفادہ کنندہ تھا اس نے اسٹیٹ بینک سے فٹ اینڈ پراپر کلیئرنس حاصل کئے بغیر حصص کی تحویل کا عمل جاری رکھا۔

انہوں نے بتایا کہ التوائے قرض کے بعد کی پیش رفت پر بینک کی مالی پوزیشن اورکمزور انتظامیہ اور بورڈ کی غفلت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک کے پاس بینک کے resolution کے لئے چند ممکنہ آپشنز تھے، جن میں بینک کا مارکیٹ کی بنیاد پر کسی دوسرے بینک کے ساتھ انضمام کر دیا جائے، بینک کو liquidate کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بینک کو کرنے کے عمل کو بینک کے ڈپازیٹرز اور بینکاری صنعت پر اس کے منفی اثر کی وجہ سے زیر غور نہیں لایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مارکیٹ پر مبنی حل کے ذریعے بینک کے resolution کے حصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک نے ڈپازیٹرز اور بینکاری نظام کے وسیع تر مفاد میں بینک کے انضمام کے آپشن پر توجہ مرکوز رکھی تھی، بینک کو تحویل میں لینے کے لئے چار بینکوں عسکری بینک، سندھ بینک، جے ایس بینک اور بینک اسلامی نے اسٹیٹ بینک کے پاس اپنا اظہارِ دلچسپی جمع کرایا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک نے بینکوں کو اس بینک کی ضروری مستعدی کرنے کی اجازت دی۔ ضروری مستعدی کے بعد مذکورہ بالا بینکوں نے 12 سے 14 ارب روپے کے منفی ایکویٹی فرق کا تخمینہ لگایا جبکہ کم از کم سرمائے کی شرح (10 ارب روپے) میں کمی اس کے علاوہ تھی۔ بینک کی ضروری مستعدی کا انعقاد کرنے کے بعد بینک اسلامی کے علاوہ دیگر بینکوں نے نضمام کے سودے پر مزید پیش رفت کے لئے دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔

متعلقہ عنوان :