کراچی میں پانی کے بحران کو سیاسی ایجنڈے پر دیکھا گیا تو ہم کراچی کے عوام کے شدید احتجاج کو نہیں روک سکیں گے ، ڈاکٹر فاروق ستار

صوبہ سندھ میں 7بر س سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور 7برس سے ہم وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کو پانی کے بحران اور کمی سے مسلسل آگاہ کررہے ہیں، پریس کانفرنس سے خطاب

بدھ 29 اپریل 2015 22:05

کراچی میں پانی کے بحران کو سیاسی ایجنڈے پر دیکھا گیا تو ہم کراچی کے ..

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 29اپریل۔2015ء) متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے رکن و حق پرست رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ کراچی بھر میں پانی کے کمیابی ختم نہیں کی گئی اور پانی کی تقسیم کو منصفانہ نہیں بنایا گیا اور اس میں زبردستی سیاسی ایجنڈے کوشامل کیا گیا تو ہم کراچی کے عوام کے شدید احتجاج کو نہیں روک سکیں گے ۔

کراچی کثیر السانی اورکثیر القومیتی شہر ہے یہاں فوری طور پر پانی کے نام پرہونے والے فسادات لسانی فسادات کی شکل اختیار کرسکتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ اگر ایم ڈی واٹر بورد سیاسی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کراچی میں پانی کے مسئلے کو سیاسی بنیاد پر چلا رہی ہے اورپانی کے بحران کو اپنی مجرمانہ غفلت کے ذریعے مزید سنگین بنا رہی ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ کراچی میں پانی کی مصنوعی قلت صرف اس لئے ہے کہ کراچی کے عوام کو ایم کیوایم کا ساتھ دینے کی سزا دی جاسکے ۔ پانی کے بحران کو شدت سے اٹھانے کا مقصد یہ ہے کہ ایم کیوایم اس مسئلے پر عوام کے احتجاج پراپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو رہی ہے ، عوام دھرنا پلان کریں گے تو متحدہ قومی موومنٹ کے نمائندے ان کے ساتھ ہوں گے ، اس ضمن میں ہم عوام سے بھی رائے لے رہے ہیں اور اب پرامن احتجاج کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا ہے ۔

ان خیالات کااظہار انہوں نے بدھ کے روزخورشید بیگم سیکریٹریٹ عزیزآباد میں پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے رکن حیدر رعباس رضوی ، سینٹر محترمہ خوش بخت شجاعت ، سندھ اسمبلی میں ایم کیوایم کے قائد حزب اختلاف خواجہ اظہار الحسن ، سندھ اسمبلی میں ایم کیوایم کے پارلیمانی لیڈر سردار احمد ، حق پرست اراکین سندھ اسمبلی محمد حسین ، فیصل سبزواری اور ہیر سوہو بھی موجود تھی ۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے کہاکہ کراچی شہراس وقت پانی کے سنگین بحران کی وجہ سے کربلا کا منظر پیش کررہا ہے اور عوم دہائیاں دے رہے ہیں اور ایک کہرام مچا ہوا ہے ۔ ایم کیوایم کے پاس پانی کے بحران کے حل اور خاتمے کیلئے کوئی اختیارات نہیں ہیں ، سندھ اسمبلی میں ایم کیوایم اپوزیشن نشستوں پر بیٹھی ہے لیکن صوبائی حکومت سندھ نے آج کے دن تک پانی کے بحران کے حل کیلئے ایم کیوایم سے صلاح و مشورے تو دور کی بات بات کرنا تک گوارا نہیں کیا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ شہر میں پانی کی طلب ایک ہزار ملین گیلن یومیہ ہے جبکہ جو پانی تھوک میں دستیاب ہے وہ 520ملین گیلن مویہ ہے اور480ملین گیلن کی کمیابی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اگر 520ملین گیلن پانی بھی منصفانہ طو رپر تقسیم کیاجائے اور وال آپریشنز کو صحیح طریقے سے مانیٹر کیاجائے تو کمیابی کوکنٹرول کیاجاسکتا ہے ، شہر میں 520ملین گیلن یومیہ تھوک پانی دستیاب ہے لیکن تقسیم کے بوسیدہ نظام کے ذریعے جو پانی پہنچتا ہے وہ 480ملین گیلن یومیہ ہے ۔

انہوں نے شہر میں پانی کے بحران پر صوبائی حکومت ،و زیراعلیٰ سندھ اور صوبائی وزیر بلدیات شرجیل میمن توجہ دینے کے بجائے گھوسٹ ملازمین اور شادی ہالوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں انہیں چھوڑ کر اگر کراچی میں 130ملین گیلن یومیہ پانی کے منصوعی بحران پر قابو پالیا جاتا تو کراچی کے عوام اذیت میں مبتلا نہ ہوتے ۔ شہر میں پانی کی جو مصنوعی قلت پیدا کی گئی ہے اس کی وجہ شہر کراچی کے عوام کی جانب سے ایم کیوایم کا بھر پور ستاھ دینا ہے اور پانی کا مصنوعی بحران پیدا کرکے کراچی کو اس کی سزا دی جارہی ہے اور انہیں ہر طرح سے مارا جارہا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ صوبہ سندھ میں 7بر س سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور 7برس سے ہم وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کو پانی کے بحران اور کمی سے مسلسل آگاہ کررہے ہیں اور دیگر منصوبوں کی طرف بھی توجہ دلا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود جتنا پانی کا بحران کراچی کے پوش علاقوں میں سنگین ہے اتنا یہ ڈیفنس اور کلفٹن میں بھی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ اگر ایم ڈی واٹر بورد کوئی سیاسی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت کراچی کے پانی کو بھی سیاسی بنیاد پر چلا رہی ہے اور مصنوعی بحران کو اپنی مجرمانہ غفلت کے ذریعے مزید سنگین بنا رہی ہے ۔

انہوں نے واضح کیا کہ اگر پانی کے تقسیم کار کے نظام کو عوام نے سمجھنا شروع کردیا تو وہ وقت دور نہیں کہ پانی کے نام پر شہر میں فسادات ہوں ، پانی کے نام پر پھوٹنے والے یہ فسادات طوری طور پر لسانی فسادات میں تقسیم ہوسکتے ہیں ۔ یہ نوشتہ دیوار ہے وزیراعلیٰ سندھ اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کیلئے کہ وہ دیوار پر لکھا ہوا پڑھ لیں اور ان کی نااہلی کے ذریعے آئندہ کراچی میں جو کچھ ہونے جارہا ہے یعنی پانی کی تقسیم کے نام پر لسانی فسادات تو وہ شہر کو تباہی کی طرف لے جائیں گے جب شہر تباہی کی جانب چلا جائے گا تو کراچی کے جو ترقیاتی منصوبے ہیں اور ان میں جس طرح سے کرپشن کے دھندے ہورہے ہیں وہ سب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے ۔

انہوں نے کہاکہ کراچی میں پانچ بڑے پمپنگ اسٹیشن ہیں یہاں جو کنٹرول ہونا چاہئے وہ بھی نہیں ہے ، اسی طرح 180کے قریب پمپنگ اسٹیشن اور والز ہیں اگر ان کی صحیح نگرانی نہ ہوئی اور پانی کی تقسیم کو منصفانہ نہ بنایا گیا ، اس میں سیاسی ایجنڈے کو گھسیڑا گیا تو کراچی کے عوام کے شدید احتجاج کو ہم بھی نہیں روک سکیں گے اور اس ردعمل سے واٹر بورڈ کے دفاتر بھی محفوظ نہیں رہیں گے اور اس کی تمام تر ذمہ داری پیپلزپارٹی اور اس کی سندھ حکومت پر عائد ہوگی ۔

انہوں نے کہاکہ پانی کے سنگین بحران پر فسادات کو لسانی فسادات کی جانب سے لے جانے سے روکنا ہے تو اس کیلئے متحدہ قومی موومنٹ اب بھی تعاون کیلئے تیار ہے لیکن پانی کی تقسیم کے موجودہ غیر منصفانہ نظام کو قبول نہیں کیاجائے گا ۔ انہوں نے کہاکہ ہائیڈرینٹس کے نظام کے تحت جو ایک ٹینکر سات سو سے آٹھ سو میں ملتا تھا اب ڈیڑھ سے تین ہزار میں مل رہا ہے اور ایک لوٹ مار کا بازار گرم ہے ، اس کیلئے ضروری ہے کہ ہائیڈرینٹس کے نظام کو بھی مانیٹر کیاجائے اور غیر قانونی ہائیڈرینٹس ختم کئے جائیں ۔

انہوں نے کہاکہ پانی کی قدرتی کمیابی پر قابو پانے کیلئے کراچی کے منصوبوں کا یہ حال ہے کہ گزشتہ سات برس سے K-3کا منصوبہ جو سو ملین گیلن یومیہ پانی کا ہے اس سے وقتی طو رپر پانی کا مسئلہ حل ہوا ، 2007ئکے بعد 8برس میں ایک ملین گیلن یومیہ پانی کا اضافہ نہیں کیا گیا ، اب بھی پانی کے بحران اور منصوبوں پر اپنی تحاریک التواء صوبائی اسمبلی سندھ میں ہیں لیکن انہیں بلڈوز کیا گیا ۔

انہو ں نے کہاکہ سندھ کی صوبائی اسمبلی کراچی کے عوام کے حقوق دینے سے قاصر ہے تو آئندہ سے ہم بھی یہ فیصلہ کریں گے اس اسمبلی میں اپنے منتخب نمائندوں کو بھیجنا بند کردیں اور آئندہ ہم سندھ اسمبلی کے احاطے میں اپنی ایک علیحدہ اسمبلی لگائیں اور وہاں عوام کے مسائل کے حل کیلئے کوشش کریں ۔ انہوں نے کہاکہ ڈھائی سو ملین یومیہ گیلن کے اضافی پانی کے منصوبے K4کا اب تک کچھ نہیں ہوا ہے ، 65ملین گیلن یومی پانی کی فراہمی کا منصوبہ ہم نے نواز شریف کو بھی دیا جو درمیانی مدت کا تھا ۔

ہم یہاں یہ کہیں گے کہ اربوں روپے ملے ہیں سندھ حکومت کو 65ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی کا منصوبہ کراچی کا صدمہ سمجھ کر پورا کردیں ۔ انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی نے دس ملین گیلن یومیہ پانی کیلئے ساڑھے چھ ارب روپے خرچ کئے لیکن 65ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی کا منصوبہ جس پر چھ ارب لاگت آتی وہ سرخ فیتے کی نظر کیا ہوا ہے جبکہ ROپلانٹ کرپشن کی ملکہ ہے جو کہ سارھے اچھ ارب سے لگائے گئے ہیں ۔

لیاری کے عوام آنکھیں کھولیں کہ انہیں دو ارب کے پلانٹ دیئے گئے اور 4ارب کی لوٹ مار کی گئی ۔ انہوں نے کہاکہ کے ای ایس سی ، واٹر بور ڈ کے ساتھ اپنے معاملات درست کرے ، واٹر بورڈ سے پانی کی فراہمی کے نرخ کمرشمل کی بنیاد پر لئے جارہے ہیں بل برھنے پر کے الیکٹرک واٹر بورڈ کو بلیک میل کرتی ہے ۔ اانہوں نے کہاکہ کراچی 70فیصد ٹیکس اسلام آباد اور 90فیصد صوبائی اسمبلی سندھ کو دیتا ہے اس کے باوجود بھی دو کروڑ آبادی والے شہر کے ساتھ جو سلوک روا رکھاجارہا ہے وہ سوتیلی ماں سے بھی بد تر ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ایم کیوایم نے کراچی میں پانی کی قلت کو دور کرنے اور اس پر قابو پانے کیلئے دیئے انہیں سندھ اسمبلی نے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا ہے اور ایک ضمن میں ایک روپیہ میں ریلیز نہیں کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے عوام کو ایم کیوایم سے گمراہ کرنے کیلئے گھوسٹ ملازمین اور شادی ہالوں کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے صوبائی حکومت اور پیپلزپارٹی کراچی سے مخلص ہے تو K4کا منصوبہ جو منظور شدہ ہے جس کیلئے بجٹ میں پیسہ بھی آچکا ہے لیکن ریلیز نہیں کیاجارہا ہے ۔

انہو ں نے کہاکہ پانی کی لائنوں کی تنصیب اور اس کے منصوبے دس مہینے بعد بھی مکمل نہ ہونے کی بڑی وجہ کراچی میں مقامی حکومت کا نظام نہ ہونا ہے ۔انہوں نے کہاکہ کراچی پاکستان کی معیشت کا مرکز اور انجن ہے ایسا لگتا ہے کہ اسے جمہوری لیز پر آنکھ بند کرکے پیپلزپارٹی کو دیدیا گیا ہے تاکہ وہ کراچی کے عوام کے مفادات کا سودا کرسکیں ۔ انہوں نے کہاکہ پانی کے بحران کو شدت سے اٹھانے کا مقصد یہ ہے کہ ایم کیوایم اس مسئلے پر عوام کے احتجاج اور دھرنوں کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو رہی ہے ، عوام دھرنا پلان کریں گے تو متحدہ قومی موومنٹ کے نمائندے ان کے ساتھ ہوں گے ، اس ضمن میں ہم عوام سے بھی رائے لے رہے ہیں اور اب پرامن احتجاج کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا ہے ۔

متعلقہ عنوان :