انسداد دہشت گردی کے فورتھ شیڈول میں شامل 600خطرناک ملزمان روپوش ہو گئے،حکومت کی طرف سے جدید ٹیکنالوجی اور آلات کا سہارا لینے کا فیصلہ ،روپوش ہونیوالے ملزمان کا تعلق پنجاب سے ہے،یہ افراد سماج دشمن سرگرمیوں اور فرقہ وارانہ واقعہ میں ملوث رہے ہیں، اہلکار وزارت داخلہ کا بی بی سی کی رپورٹ میں انکشاف

اتوار 12 اپریل 2015 20:55

انسداد دہشت گردی کے فورتھ شیڈول میں شامل 600خطرناک ملزمان روپوش ہو گئے،حکومت ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔12 اپریل۔2015ء) برطانوی خبر رسا ں ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے فورتھ شیڈول میں شامل 600خطرناک ملزمان روپوش ہو گئے ہیں اور حکومت نے ان کی نگرانی کیلئے جدید ٹیکنالوجی اور آلات کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ روپوش ہونے والے تمام ملزمان کا تعلق پنجاب سے بتایا گیا ہے، یہ افراد سماج دشمنی سرگرمیوں اور فرقہ وارانہ واقعہ میں ملوث رہے ہیں۔

اتوار کو بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ حکومتی حکام کے مطابق انسدادِ دہشت گردی کے فورتھ شیڈول میں شامل افراد میں سے 600سے زیادہ ان اطلاعات کے سامنے آنے کے بعد روپوش ہوگئے ہیں کہ حکومت ان کی نگرانی کیلئے جدید آلات کا سہارا لینے والی ہے۔

(جاری ہے)

فورتھ شیڈول میں ایسے افراد کو شامل کیا جاتا ہے جو سماج دشمن سرگرمیوں اور فرقہ وارانہ تنازعات میں ملوث رہے ہوں اور انھیں باقاعدگی سے اپنی نقل و حرکت کی اطلاع مقامی تھانے کو دینا ہوتی ہے۔

وزارت داخلہ کے ایک اہلکار کے مطابق روپوش ہونے والے تمام افراد کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اْن افراد کا سراغ لگانے اور حراست میں لینے کا حکم دیا ،تاہم ان کے بارے میں متعلقہ تھانوں کو بھی معلومات نہیں کہ وہ کہاں پر ہیں۔ایسے افراد کا سراغ لگانے کے لیے مقامی تھانوں، سپیشل برانچ اور سی آئی ڈی کے اہلکاروں پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔

وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق پنجاب حکومت نے ایسے افراد کی نگرانی مائیکرو چپس کے ذریعے کرنے کے لیے ترکی سے ٹیکنالوجی لی تھی اور انسداد دہشت گردی کے فورتھ شیڈول کے سیکشن ای ڈبل ون میں شامل متعدد ایسے افراد کو کڑے پہنائے گئے ہیں تاکہ ان کی نقل حرکت کے بارے میں معلوم کیا جا سکے۔ان افراد کا سراغ لگانے کے لیے مقامی تھانوں، سپیشل برانچ اور سی آئی ڈی کے اہلکاروں پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں اہلکار کے مطابق جب پنجاب کے مختلف علاقوں میں رہنے والے ان افراد کو مائیکرو چپس کے تحت اْن کی نگرانی کے بارے میں معلوم ہوا تو ان میں سے 600سے زائد افراد روپوش ہوگئے اور گذشتہ دو ہفتوں کے دوران ان افراد کے بارے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو معلومات نہیں مل سکی ہیں۔

ان افراد کی تلاش پر مامور ٹیموں کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ اْن کے اہلخانہ کے علاوہ ان افراد سے بھی رابطہ کر کے معلومات حاصل کریں جنھوں نے ان افراد کی ضمانت دی تھی کہ وہ متعلقہ تھانے کو اپنی نقل وحرکت کے بارے میں بتانے کے پابند ہوں گے۔اس کے علاوہ اْن جماعتوں کے قائدین سے بھی معلومات حاصل کی جائیں گی جن کے ساتھ ایسے افراد کی وابستگی ہے۔

وزاتِ داخلہ کے اہلکار کے مطابق وفاقی دارالحکومت اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی میں ایسے افراد کے تعداد دو سو کے قریب ہے جنہیں اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ شہر سے باہر جانے کے لیے متعلقہ پولیس سٹیشن کو مطلع کریں گے تاہم ان میں سے بھی اکثریت کا ریکارڈ تھانوں میں موجود ہی نہیں کہ وہ کس وقت شہر سے باہر گئے۔ایسے افراد جنہیں انسداد دہشت گردی کے فورتھ شیڈول میں رکھا گیا ہے کہ اْن کی زیادہ تعداد صوبہ پنجاب کے وسطی شہر جھنگ اور فیصل آباد سے ہے جبکہ جنوبی پنجاب کے شہر بہاولپور اور بہاولنگر میں بھی ایسے افراد کی قابل ذکر تعداد موجود ہے۔

اْن میں سے اکثریت کا تعلق مختلف مذہبی جماعتوں سے ہے۔اہلکار کے مطابق ایسے افراد جنہیں انسداد دہشت گردی کے فورتھ شیڈول میں رکھا گیا ہے کہ اْن کی زیادہ تعداد صوبہ پنجاب کے وسطی شہر جھنگ اور فیصل آباد سے ہے جبکہ جنوبی پنجاب کے شہر بہاولپور اور بہاولنگر میں بھی ایسے افراد کی قابل ذکر تعداد موجود ہے۔جن افراد کو انسداد دہشت گردی کے اس قانون کے تحت پابند بنایا گیا ہے اْن میں سے اکثریت کا تعلق مختلف مذہبی جماعتوں سے ہے۔

وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق ضلعی رابطہ افسر ہر تین ماہ کے بعد شیڈول فورتھ کے تحت رکھے گئے افراد کی فہرست کا جائزہ لینے کا پابند ہے کہ آیا یہ افراد کہیں سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث تو نہیں ہیں۔ضلعی رابطہ افسر خفیہ اداروں کی رپورٹ کی روشنی میں اس فہرست میں کمی یا اضافہ کرنے کا مجاز بھی ہے۔اہلکار کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کے تحت مائیکرو چپس کے ذریعے ایسے افراد کی نگرانی کا دائرہ کار پورے ملک میں پھیلایا جانا ہے اور اس منصوبے کا آغاز پنجاب سے کیا گیا ہے تاہم پہلے مرحلے میں ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس پر عمل درآمد میں مشکلات درپیش ہیں۔