سندھ میں گندم کی سرکاری خریداری کے لئے باردانے کی تقسیم سے متعلق کاشتکاروں کی شکایات دور کی جائیں گی، صوبائی وزیر

ضلع سانگھڑ اور نواب شاہ کے ڈی ایف سی معطل کئے گئے ہیں جبکہ 15 انسپکٹرز کو برطرف کرکے ان کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہے

جمعہ 10 اپریل 2015 22:54

حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔10 اپریل۔2015ء) صوبائی وزیر ایکسائز و خوراک گیان چند ایسرانی نے کہا ہے کہ سندھ میں گندم کی سرکاری خریداری کے لئے باردانے کی تقسیم سے متعلق کاشتکاروں کی شکایات دور کی جائیں گی، ضلع سانگھڑ اور نواب شاہ کے ڈی ایف سی معطل کئے گئے ہیں جبکہ 15 انسپکٹرز کو برطرف کرکے ان کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہے، محکمہ خوراک کے گوداموں میں 7 لاکھ ٹن گندم پہلے سے موجود ہے جبکہ خریداری کا ہدف بھی 9 لاکھ ٹن مقرر کیا گیا ہے، سندھ کو گندم کی خریداری کے حوالے سے 70 ارب روپے کے قرضوں کے بوجھ کا سامنا ہے، وفاقی حکومت کی طرف سے 7 لاکھ ٹن گندم یوکرائن سے درآمد کرنے کی اجازت دینے اور سندھ میں اس کی فروخت سے صوبے کو بہت نقصان ہوا ہے، گذشتہ سال محکمہ خوراک سے گندم نہ خریدنے والی فلورملوں کا اس سال کوٹہ نہیں دیا جائے گا۔

(جاری ہے)

وہ سابق ضلع ناظم سیکریٹریٹ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے، اس موقع پر سیکریٹری خوارک آفتاب میمن ،ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ حیدرآباد فرخ شہزاد قریشی اور دیگر افسران بھی موجود تھے۔گیانچند ایسرانی جن کے پاس پہلے سے ہی ایکسائز سمیت 4 محکمے ہیں، نے بتایا کہ دو تین پہلے ہی انہیں محکمہ خوراک کا قلمدان سونپا گیا ہے پیپلزپارٹی کی قیادت اور حکومت نے خصوصا باردانے کی تقسیم کے سلسلے میں کاشتکاروں کی شکایات کا دور کرنے کا انہیں ٹاسک دیا ہے، انہوں نے بتایا کہ آج انہوں نے حیدرآباد، میرپورخاص اور جامشورو کے افسران کے ساتھ اجلاس کیا ہے اور کوٹری میں بولہاری کے گندم کے گوداموں کا بھی معائنہ کیا ہے، گیانچند ایسرانی نے کہا کہ وہ صوبے کے تمام اضلاع کا دورہ کر رہے ہیں تاکہ گندم کی خریداری اور باردانے کی تقسیم سے متعلق کاشتکاروں کی شکایات کا جائزہ لے سکیں وہ محکمہ خوراک کے افسران کے علاوہ کاشتکار نمائندوں سے بھی ملاقاتیں کریں گے، انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال وفاقی حکومت نے یوکرائن سے 7 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دی تھی وہ تمام گندم سندھ میں فروخت کر دی گئی حالانکہ یہ گندم چاروں صوبوں میں جانی چاہیے تھی اس غلط پالیسی کی وجہ سے سندھ کو بہت مالی نقصان ہوا ہے کیونکہ گذشتہ سال محکمہ خوراک سندھ نے جو 12 لاکھ ٹن گندم خریدی تھی اس میں سے بہت کم فلورملوں کو جاری ہو سکی کیونکہ یوکرائن کی غیرمعیاری گندم کی قیمت مارکیٹ میں نسبتاً بہت کم تھی اس طرح محکمہ خوراک کے پاس گندم کے غیرمعمولی ذخائر جمع ہیں، انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود سندھ حکومت نے 9 لاکھ ٹن گندم کاشتکاروں سے خریدنے کا ہدف مقرر کیا ہے اور ہماری کوشش ہے کہ پاسکو بھی سندھ سے 4 لاکھ ٹن گندم خریدے اس طرح مجموعی طور پر گذشتہ سال کے برابر کاشتکاروں سے خریداری ہو سکے گی، انہوں نے بتایا کہ فلور ملوں نے یوکرائن سے درآمدشدہ گندم خریدی اور محکمہ خوراک سے گندم خریدنے سے انکار کر دیا اس سے انہیں ہونے والے بڑے مالی نقصان کو کم کرنے کے لئے سندھ حکومت نے وفاقی حکومت سے گندم برآمد کرنے کی اجازت حاصل کی اور گندم کی برآمد پر 450 روپے فی بوری سبسڈی دینے کا اعلان کیا اس طرح صوبے نے 4 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنے کا فیصلہ کیا مگر اس کے باوجود اڑھائی لاکھ ٹن سے زیادہ گندم برآمد نہیں ہو سکی، انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت سے اس سلسلے میں رجوع کیا گیا تو اس نے بھی اسی کے برابر سبسڈی دی اور گندم کی برآمد ک کوشش کی جا رہی ہے، انہوں نے بتایا کہ گذشتہ سال گندم کی فصل خریدنے تک حکومت سندھ کے ذمہ 59 ارب روپے کے قرضے تھے جس میں سے 6 ارب روپے ادا کر دیئے گئے تھے اور اب نئی گندم خریدنے کے لئے مزید 29 ارب روپے کے قرضے لئے جا رہے ہیں اس طرح 82.25 ارب روپے کا قرض بنتا ہے ہمیں توقع ہے کہ گندم کی فروخت سے 13 ارب روپے وصول ہو سکیں گے اور یہ بینکوں کا یہ قرضہ کم ہو کر 70 ارب روپے تک رہ جائے گا، انہوں نے بتایا کہ سندھ حکومت ان قرضوں پر 10.7 فیصد سود ادا کر رہی ہے، ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ خریداری مراکز پر فوڈ انسپکٹر بھاری رشوت وصول کرکے لگائے جاتے ہیں اور انہیں کمیشن کی رقم کی وصولی کا کوئی ٹاسک دیا جاتا ہے، صوبائی وزیر خوراک نے کہا کہ وہ پورے سندھ کا دورہ کر رہے ہیں جہاں بھی مڈل مین یا محکمہ خوراک کے افسران کے باردانے کی تقسیم میں جانبداری برتنے یا کرپشن کرنے کی کوئی شکایت ملے گی وہ اس کی تحقیقات کرائیں گے اور ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی جائے گی، انہوں نے کہا کہ باردانے کی بااثر افراد اور مڈل مین میں تقسیم کا سدباب کیا جائے گا اور ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی سانگھڑ اور نواب شاہ کے ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر کو معطل اور 15 فوڈ انسپکٹرز کو برطرف کر کے ان کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہے، ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ یوکرائن کی گندم کھانے کے قابل نہیں تھی لیکن فلورملوں نے یہی خرید کر اس کا آٹا کراچی میں فروخت کیا، انہوں نے کہا کہ جن فلورملوں نے گذشتہ سال محکمہ خوراک سے گندم لینے سے انکار کیا تھا اس سال اگر وہ گذشتہ سمیت تمام کوٹہ نہیں لیں گے تو انہیں گندم کی فراہمی بند کر دی جائے گی، انہوں نے کہا کہ اس سال سندھ میں گندم کی پیداوار کا اندازہ50 لاکھ ٹن ہے اور حکومت عام طور پر پیداوار کا 25 فیصد خریدتی ہے جبکہ 25 فیصد حصہ کاشتکار خوراک اور بیج کے لیے رکھتے ہیں اور 50 فیصد کھلی مارکیٹ میں فروخت ہوتا ہے، ایک سوال پر انہوں نے دعویٰ کیا کہ سندھ میں تمام خریداری مراکز کھل چکے ہیں اور ہدف کے مقابلے میں 50 فیصد گندم خریداری جا چکی ہے، انہوں نے کہا کہ رشوت لے کر باردانہ مڈل مین اور تاجروں کو فروخت کرنے کا تاثر صحیح نہیں ہے تاہم ایسی شکایات ضرور ہیں جن کی تحقیقات کرائی جائے گی، انہو ں نے کہا کہ گذشتہ سال گندم کی خریداری کے حوالے سے جن فلور ملوں نے محکمہ خوراک سے تعاون کیا تھااس سال ان کو ترجیحی طور پر گندم کا کوٹا دیا جائے گا۔

متعلقہ عنوان :