اسلام آباد،انٹری گیٹ،انسپکٹرز کاؤنٹر ز،بینک چالان،جانچ پڑتال،افسران کی تصدیق کے دورا ن فیس کے ساتھ تین گناہ بھتہ لئے جانے کا انکشاف

بدھ 8 اپریل 2015 20:01

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔08 اپریل۔2015ء ) وزارتِ داخلہ کے واضح احکامات کے باوجود اسلام آباد ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آفس ای ٹی او نصراللہ رانجھا کی سر پرستی میں انٹری گیٹ،انسپکٹرز کاؤنٹر ز،بینک چالان،جانچ پڑتال،افسران کی تصدیق کے دوران غیر ضروری اعتراضات لگا کر جائز کام کے لیے بھی فیس کے ساتھ تین گناہ بھتہ دینے پر مجبور کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے،بھتے کا کمال معمولی ملازمین کے پاس لگثرری گا ڑیاں،پلاٹ و دُکانیں ،پابندی کے باوجود اندر باہر ٹاؤٹ مافیا کا راج،ہر جائز و ناجائز کام کا الگ الگ بھتہ مقرر،کاؤنٹروں پر بیٹھے کرپٹ ترین ریکارڈکے حامل انسپکٹرزرجسٹریشن،ٹرانسفرز،پرمٹ،و دیگر کے دوران حکومتی محصولات وصول کرنے کے دوران سر عام ٹاؤٹوں سے فائلوں کے بنڈل کے بدلے ہزاروں روپے جبکہ دور دراز سے آئے شہریوں کو ادھر اُدھر کے پھیروں کے ذریعے بھتہ دینے پر مجبور کرنے لگے،سی سی ٹی وی کیمروں کا کاؤنٹر سے فوکس تبدیل کرکے سر عام لین دین کرنے لگے،کوئی پوچھنے والا نہیں ۔

(جاری ہے)

آن لائن کو ایک شہری فیاض نور نے بتایا کہ ٹرانسفر کے لیٹر کے لیے 2013ء میں گاڑی نمبر ZH-882 اپلائی کیا تھا پھیروں پر پھیرے لگانے کے بعد اب 2015میں جو لیٹر دیا اُس میں نہ تو میری گاڑی نمبر درست ہے اور میرے نام کی جگہ کسی راشد اشرف کانام لکھ دیا جب عملے سے رابطہ کیا تو پہلے وہ ایک کاوئنٹر سے دوسرے پھیرے کراتے رہے کوئی بھی غلطی درست کرنے کو تیار نہیں اس کے لیے بھی ایک ہزار روپے مانگ رہے ہیں افسران کو بتایا لیکن وہ سیدھے منہ بات کرنے کو بھی تیار نہیں صبح سے آیا ہوں اب سہ پہر کے تین بج گئے ہیں۔

ایک اور شہری علی رضا نے بتایا کہ گاڑی کی ٹرانسفر لیڈ نکلوانی ہے اس کی ایک سو روپے سرکاری فیس ہے جبکہ کاؤنٹر والے دو ہزار روپے مانگ رہے ہیں ویسے ہی بے تُکے اعتراضات لگا کر ٹاؤٹ مافیا کے آنے پر کلیئر کر لیتے ہیں گا ڑیوں کے نمبرز کے بھی الگ الگ ریٹ ہیں تین ہزار سے لیکر چالیس ہزار تک فروخت کیے جاتے ہیں جبکہ ان کی سرکاری فیس ایک ہزار سے دو ہزار تک ہے اور اس سے اضافی وصولی غیر قانونی طور پر وصول کرتے ہیں دوسری صورت میں کہا جاتا ہے یہ نمبر موجود نہیں۔

ذرائع کے مطابق عرصہ سے مخصوص انسپکٹرز و دیگر عملہ تعینات ہے جن کے متعدد بار تبادلے اور معطلی سنگین نوعیت کے کیسز میں عمل میں لائی گئی لیکن بااثر گروہ دوبارہ ملی بھگت سے بحالی اور تبادلے واپس کر لیتے ہیں جبکہ معمولی ملازمین کے پاس بھی لگثرری گاڑیاں موجود ہیں جبکہ ان سے اوپر والوں کے پاس پوش علاقوں میں پلاٹ و دُکانیں اور کروڑوں کے کاروبار ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کیسے ہیں۔آن لائن کے رابطہ کرنے پر ضلعی انتظامیہ کے ترجمان سے ان کے موبائل پر رابطہ ممکن نہ ہو سکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عمرفاروق

متعلقہ عنوان :