اپوزیشن و حکومتی اتحا دی اراکین پارلیمنٹ کا یمن سعودی عرب تنازعہ میں ثالثی کا کردار ادا کرنے پر زور ، فوج سعودی عرب بھیجنے کی مخالفت ، پیپلزپارٹی نے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کیلئے ان کیمرہ اجلاس کی تجویز دیدی

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ ،سینیٹرفرحت اللہ بابر ،سراج الحق ،مشاہد حسین ، جہانزیب جمالدینی اور دیگر کاپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یمن کی صورتحال پر بحث کے دوران اظہار خیال

منگل 7 اپریل 2015 19:09

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔07 اپریل۔2015ء) پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن و حکومتی اتحا دی اراکین پارلیمنٹ نے یمن سعودی عرب تنازعہ میں فریق بننے کے بجائے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فوج سعودی عرب بھیجنے کی مخالفت کی او ر کہاکہ حملہ سعودی عرب پر نہیں بلکہ یمن پر ہوا ہے ، ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے،بریگیڈیئر ضیاء الحق کو اردن بھیجا ڈالر اور اشرفیاں تو ملیں مگر فلسطینی روٹھ گئے، اعجاز الحق نے کہا کہ سفارتی ذرائع ضرور استعمال ہوں مگر پاکستان ان باغیوں کو ہتھیاروں کی فراہمی کے معاملات بھی اٹھائے، 1947ء سے آج تک سعودی عرب نے کسی آزمائش میں ہمیں مایوس نہیں کیا،ڈاکٹر جی جی جمال نے کہا کہ اپنا گھر کی تو حفاظت نہ ہو سکی چلے خدا کے گھر کی حفاظت کرنے،جبکہ پیپلز پارٹی نے حقائق پارلیمان کے سامنے رکھنے کے لئے پارلیمنٹ کا ان کیمرہ اجلاس بلا نے کی تجویز دیدی ، بی این پی مینگل کا موقف تھا کہ حرمین الشریفین کے دفاع کیلئے تمام مسلمان تیار ہیں جبکہ حکومت کو کسی شہنشاہ کو بچانے کیلئے اپنی فوج سعودی عرب نہیں بھجوانی چاہیے۔

(جاری ہے)

منگل کو سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت یمن کی صورتحال پر بحث کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ سیشن دوبارہ شروع ہو تواس دوران عام بحث میں حصہ لیتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سینیٹرسراج الحق نے کہا کہ ساری قوم کی نظریں پارلیمنٹ کی طرف لگی ہیں کہ اس نازک صورتحال میں کیا فیصلہ کرتی ہے، جنگیں تباہی کا سامان لاتی ہیں، جنگوں کا نقصان انسانیت کو ہوتا ہے، جنگوں کا فائدہ اسلحہ سازاور سرمایہ دار ممالک کو ہوتا ہے، جنگ کا فائدہ اسرائیل اور امریکہ کو ہو گا، پاکستان کو یمن کی صورتحال میں امن اور ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیے، مسئلے کا حصہ بننے کی بجائے مسئلے کے حل کی کوشش کرنی چاہیے، سعودی عرب کے ساتھ دوستی کا حق یہ ہے کہ ہم سعودی عرب کو جنگ میں مبتلا ہونے سے بچائیں، یمن کا مسئلہ اچانک پیدا نہیں ہوا، یہ ایک گریٹ گیم کا حصہ ہے، ایک سپر پاور نے عراق ،شام اور لیبیا کو تباہ کیا، یمن کو خانہ جنگ کی طرف دھکیلا گیا، یمن کا مسئلہ یمن کے اندر ہی حل ہونا چاہیے، اگر کسی نے ابراھہ بن کر مکہ اور مدینہ کی طرف رخ کیا تو پاکستانی فوج سمیت ہر مسلمان اس کے تحفظ کیلئے نکل کھڑا ہو گا، ماضی میں اللہ نے ابابیلوں کے ذریعے مکہ کا رخ کرنے والوں کو تباہ کیا، سعودی عرب کی ریاست کی حفاظت سارے عالم اسلام کا فرض ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ایک پارلیمانی وفد بنا کر سعودی عرب اور یمن بھیجے جو قیام امن کیلئے کوششیں کریں، اگر سعودی عرب اور یمن کی لڑائی کو فرقوں کی لڑائی بنایا گیا تو پھرپورا عالم اسلام اس کی لپیٹ میں آ جائے گا، پاکستان کے عوام نے ہمیشہ شیعہ سنی لڑائی کی سازش ناکام بنائی ہے۔پاکستان ، ایران، ترکی اور سعودی عرب کو ساتھ ملا کر مسئلہ کے حل کیلئے کوشش کرے، پاکستان سعودی عرب کی مدد کی درخواست پر ضرور غور کرے تاہم اس بات کا خیال رکھے کہ ہماری افواج سعودی عرب سے باہرجنگی مہم میں استعمال نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی ایوانوں میں واپسی کا کریڈٹ ساری قوم کو جاتا ہے، قائد حزب اختلاف خورشید شاہ اور سپیکر بھی اس کریڈٹ کے مستحق ہیں، اب ہمیں ماضی کے جھگڑوں کو بھلا کر مستقبل کی طرف بڑھنا چاہیے، اس ملک کے عوام کے مسائل سیاسی لیڈروں کے مسائل سے مختلف ہیں، عوام کے مسائل لوڈشیڈنگ، بدامنی، بے روزگاری اور جہالت ہیں، پی ٹی آئی کے دوست بھی عمل کے رد عمل کی حکمت عملی کی بجائے عوامی مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دیں، پی ٹی آئی کی کے پی (ن) لیگ پنجاب اور پی پی پی سندھ میں برسراقتدار ہے،اس لئے یہ پارٹیاں اپنے اپنے صوبوں اور مرکز میں کارکردگی کیلئے اقدامات کریں، سعودی عرب کے ساتھ مل کر یمن کی جنگ کو آگے بڑھانے کی بجائے اس جنگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ (ق ) کے سینیٹرمشاہد حسین سید نے کہا کہ یمن کی جنگ فرقہ وارانہ نہیں بلکہ اقتدار کی جنگ ہے یہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان پراکسی وار ہے سعودیہ نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا اگر سعودی عرب کی جغرافیائی سلامتی کو خطرہ ہو تو پاکستان کو مدد کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن اس وقت سعودی عرب کی جغرافیائی حدود کو کوئی خطرہ نہیں یمن کی سول وار عالم اسلام کے درمیان پراکسی وار بنتی جارہی ہے ہمیں اس صورتحال کو اپنے مفادات کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔

ہمیں عرب پراکسی وار کا حصہ نہیں بننا چاہئے یہ صورتحال عرب سپرنگ کا نتیجہ ہے عالم اسلام کا اتحاد پاکستانی مفاد ہے کیکونکہ پاکستان نے ماضی میں عالم اسلام کے قائد کا کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان نے ماضی میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات بہتر بنانے میں کردار ادا کیا پاکستان ماضی میں کبھی کسی اسلامی ملک کے اندر سول وار کا حصہ نہیں بنا۔

یمن کی صورتحال افغانستان جیسی ہے جہاں کبھی امن قائم نہیں رہا پاکستان کو سلامتی کونسل سے یمن میں خانہ جنگی بند کرانے کی اپیل کرنی چاہئے۔ پاکستان اور ترکی کو اسلام آباد یا استنبول میں سعودی عرب اور ایران کے وزیر خارجہ کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کرنا چاہئے۔ یمن بارے سعودی عرب کی شکایات درست ہیں ایران سے کہنا چاہئے کہ وہ یمن کی صورتحال میں مداخلت نہ کرے یمن سعودی عرب جنگ سے پاک چین اقتصادی راہداری کا عظیم منصوبہ بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے ہمیں ماضی کی غلطیاں نہیں دہرانی چاہئیں اگر غلطی کرنی ضروری ہے تو پرانی کے بجائے نئی غلطی کرنی چاہئے۔

میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ پاکستانی پارلیمنٹ کو یمن کی داخلی اور فرقہ وارانہ صورتحال کو زیر بحث نہیں لانا چاہئے۔ مشرق وسطیٰ کی صورتحال میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہئے عربوں کو ترکوں سے لڑا کر مشرق وسطی کا موجودہ نقشہ انگریزوں نے بنایا مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال عرب بہار کا نتیجہ ہے اسے نہیں روکا جاسکتا۔ آل سعود کی حکومت کا بچاؤ مکہ مدینہ کا تحفظ نہیں ہے جو کچھ مصر اور لیبیا میں ہوا پانچ یا دس سال بعد یہی کچھ سعودیہ میں ہوسکتا ہے کل اگر سعودی عرب کے عوام سعودی حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو ہم کیا کریں گے پاکستان عالم عرب کی موجودہ صورتحال سے الگ رہے میری رائے میں سعودی عرب فوج نہیں بھجوانی چاہئے۔

ایران ہمارا نزدیکی ہمسائیہ ہے نزدیکی ہمسایئے کو دور کے ہمسائیے پر فوقیت دینی چاہئے ایسا نہ ہو کہ ایران سے ہمارے تعلقات خراب ہوجائیں۔ ایران کے ساتھ بلوچستان میں ہماری سینکڑوں کلومیٹر سرحد لگتی ہے عرب اور ہم الگ ہیں یہ جھگڑا ہمارا نہیں عربوں کا ہے۔ غلام احمد بلور نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دوستوں کی واپسی پر انہیں خوش آمدید اور مبارکباد پیش کرتا ہوں جن کے فیصلے کو وقت نے درست ثابت کیا اگر ہم یم نجنگ کا حصہ بنے تو یہ آگ ہمار یملک کو بھی لپیٹ میں لے لے گی ہمیں مصالحت کی طرف جانا چاہئے اور فوجیں بھجوانے سے باز رہنا چاہئے۔

الله کا حکم ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں اگر ان میں جھگڑا ہوجائے تو ان میں صلح کراؤ ۔ انہوں نے کہا کہ ہر مسلمان حرمین کے تحفظ کے لئے جانوں کی قربانی پیش کرنے کے لئے تیار ہے لیکن اگر ہم جنگ میں شریک ہوجائیں گے تو پھر صلح نہیں کرسکیں گے سعودی حکمرانوں نے میاں نواز شریف کے خاندان کو جلا وطنی کے دوران آٹھ سال شاہی مہمان بنایا اس لئے ان پر سعودی حکمرانوں کا حق ہے لیکن وہ اپنے اس حق کو ثالث کا کردار ادا کرکے نبھائیں انہوں نے کہا کہ میں یہ نہیں چاہوں گا کہ ہماری فوج کرائے کے فوجیوں کا کردار ادا کرے۔

وزیراعظم کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یمن کی صورتحال پر پالیسی بیان پراظہار خیال کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے ایوان میں اچھی بات کی ہے ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ مسئلہ حل ہو لیکن فوری فیصلہ نہ کریں، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تمام رہنماؤں نے مثبت تقاریر کی ہیں اور حکومت کی تعریف بھی کی گئی۔

قائد حزب اختلاف نے کہا کہ یہ اچھی بات ہے کہ وزیراعظم نواز شریف ترکی کے صدر کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ان کے ساتھ مل کر معاملے گھر سلجھانے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم اس معاملے میں حکومت کے ساتھ ہیں، ہم وہی بات کرنا چاہتے ہیں جو پاکستان کے مفاد میں ہو، پارلیمنٹ ہی حکومت کو طاقت دیتی ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ تمام جماعتوں کے سربراہان کا ان کیمرہ اجلاس بلایا جائے جس میں حکومت کھل کر سب کو اعتماد میں لے۔

یمن اور سعودی عرب کی صورتحال پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے پارلیمنٹرین کی پارلیمنٹ میں آمد خوش آئندہ ہے یہ کسی ایک سیاسی جماعت کی نہیں پارلیمنٹ کی فتح ہے ، ایک وفاقی وزیر کا رویہ مناسب نہیں تھا، ان وزیر موصوف نے آگ لگانے کی کوشش کی ، امید ہے کہ نامناسب الفاظ حذف کرنے کی وہ خود درخواست کریں گے ، سپیکر نے اپنے منصب کے عین مطابق فیصلہ دیا جس نے پاکستان کو سیاسی کرائسز سے بچایا ، جس طرح ایوان نے پی ٹی آئی کو گلے لگایا ہے امید ہے کہ اسی طرح پی ٹی آئی اپنے منحرف ارکان کو گلے سے لگا لے گی ، سعودی عرب جنگ کے خدشات کا اظہار ان کیمرا سیشن میں کیا جائے تاکہ پارلیمان سفارات بہتر انداز میں دے سکے ، یہ واضح ہوا کہ حملہ سعودی عرب پر نہیں بلکہ یمن پر ہوا ہے ، ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے ، سعودی عرب کی جانب سے واضح درخواست آچکی ہے ۔

جنرل ایوب نے بریگیڈیئر ضیاء الحق کو اردن بھیجا ، ہمیں ڈالر اشرفیاں ، ریال تو مل گئے مگر فلسطینیوں نے ہماری حمایت نہیں کی ۔ 2001ء میں ایک ٹیلی فون کال پر اپنے ایئر بیسز امریکہ کے حوالے ، افغانستان پر بمباری کیلئے جس کا نتیجہ آج تک بھگت رہے ہیں ، تاریخ سے سبق سیکھنا ضروری ہے ، صرف سعودی عرب کے دفاع کیلئے محدود پیمانے پر مددکریں پر ان کے ساتھ بھی مثبت بات چیت کرکے اعتمادمیں لیا جایے ۔

ایوان نے ایک مہینہ پہلے پاکستانی سفیر کو کال کی اور متوقع مداخلت پر تشویش کا اظہار کیا ۔ پاکستان کے آئین کے میں اسلامی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کو استوار کرنا لکھا ہے ، خارجہ پالیسی یہ آئینی تقاضے کو پورا کرنا ہے ، فاٹا کے ڈاکٹر جی جی جمال نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہمیں پرائی جنگ میں گھسنے سے گریز کرنا چاہیے ، اپنے گھرکی حفاظت کر نہیں پارہے اور خدا کے گھر کی حفاظت کیلئے چل پڑے ہیں ۔

افغان جنگ کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ، اس جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے ۔ اعجاز الحق نے کہا کہ اس بحث کا آغاز وزیراعظم کرتے توزیادہ مثبت انداز میں بات کی جاسکتی تھی ۔ قومی سلامتی کے معاملات پر ان کیمرہ اجلاس بھی اتنا بڑا نہیں ہوسکتا تھا ، پارلیمانی رہنماؤں کو اعتماد میں لیا جاتا تو بہتر تھا ۔ سعودی عرب اور یمن کی طرف سے یہ پہلا واقعہ نہیں ہے ۔

سعودی عرب پر بہت مرتبہ یمن کی جانب سے حملے ہوچکے ہیں ، یمن میں مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جارہا ہے ۔ یہ پراکسی وار وار بنتی جارہی ہے ۔ پاکستان ان میٹنگز میں باغیوں کو ہتھیاروں کی فراہمی کی بات بھی ہونی چاہیے ۔ 1947ء سے آج تک سعودی عرب نے کسی موقع پر ہمیں مایوس نہیں کیا ہر جنگ ، قدرتی آفات میں کارساں کو کھڑا رہاہے ۔ 1998 کی پابندیوں سے نکالنے کیلئے سعودی ہمارے ساتھ کھڑے تھے ۔

اتحادی افواج میں اضافہ کرکے اسلامی فوج بنائی جائے اور ان میں صرف 4 پاکستانی گئے تھے اور افغانستان کی تاریخ ہے، روس ٹوٹا اور امریکہ کو بھی ناکامی ہوئی ۔ بی این پی(مینگل گروپ) کے سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا ہے کہ حکومت کو حرمین الشریفین کے نام پر کسی شہنشاہ کو بچانے کیلئے فوج سعودی عرب نہیں بھجوانی چاہیے، جب عراق اور لیبیا پر چڑھائی ہوئی تو ہم خاموش رہے جبکہ اب اچانک سعودی عرب کے دفاع کیلئے کھڑے ہو گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم جب مسلم امہ کی بات کرتے ہیں تو سب سے زیادہ تضادات مسلم امہ کے اندر نظر آتے ہیں، ہمیں مسلم امہ کو سائنس و ٹیکنالوجی اور ترقی کے راستے پر لے کر چلنا ہو گا۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی کا کہنا تھا کہ حرمین الشریفین کے دفاع کیلئے تمام مسلمان تیار ہیں جبکہ حکومت کو کسی شہنشاہ کو بچانے کیلئے اپنی فوج سعودی عرب نہیں بھجوانی چاہیے، ہمیں سب سے پہلے اپنے ملک کو ٹھیک کرنا چاہیے اور کسی دوسرے ملک میں مداخلت سے گریز کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ جب ماضی میں عراق اور لیبیا پر چڑھائی ہوئی تو ہم خاموش رہے، مگر اب اچانک سعودی عرب کے دفاع کیلئے کھڑے ہو گئے ہیں۔ پاکستان اور ایران کی طویل سرحد ملتی ہے جبکہ حکومت کو چاہیے کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کا خیال کرے۔ (اح +را+اچ)