قائمہ کمیٹی قانون وانصاف نے وفاقی دارالحکومت کی ماتحت عدلیہ کے لئے سروسز ٹریبونل بل متفقہ طور پر منظور کر لیا

جمعرات 2 اپریل 2015 20:05

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔02 اپریل۔2015ء)قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے اسلام آباد کی ماتحت عدلیہ کے لئے ملازمت مقدمات کی سماعت کے لئے وفاقی دارالحکومت میں سروسز ٹریبونل کے قیام کا بل متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے کمیٹی کا اجلاس ایم این اے شبیر ورک کی صدارت میں ہوا جس میں نوید قمر ، معین وٹو ، چودھری اشرف ، ایم این اے عائشہ ، ایم این اے جسٹس ( ر ) افتخار چیمہ ، کرن حیدر اور مس عائشہ نے شرکت کی ۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی خواہش ظاہر کی تھی کہ وفاقی دارالحکومت کی ماتحت عدلیہ کے مقدمات کی سماعت کے لئے سروسز ٹریبونل قائم کیا جائے وزارت قانون کے سیکرٹری نے بھی بل کی اہم شقوں بارے کمیٹی کو بریف کیا ۔ کمیٹی نے ہندو میرج بل 2015 میں مزید غور و خوص کے لئے ملتوی کر دیا اور فیصلہ کیا کہ بل کی منظوری سے قبل قومی اسمبلی میں متعدد ارکان کو مدعو کیا جائے اور ان سے تجاویز طلب کر کے بل کو حتمی شکل دی جائے ۔

(جاری ہے)

چیئرمین کمیٹی نے ایم این اے علیزا اقبال حیدر کی مستقل غیر حاضری پر نویر قمر کو ان کی جگہ کسی دوسرے ممبر کو شامل کرنے کی سفارش کی ۔ یہ ریاست کے آئین میں شامل ہے کہ ریاست اقلیتوں کے آئینی حقوق اور ان کے مفادات کا تحفظ کرے اور شادی ، خاندان ، ماں اور بچے کی حفاظت کرے ۔ ہندوؤں کی شادیوں اور علاوہ ازین ضمنی معملات کی رجسٹریشن کو باقاعدہ کرنے کے لئے کوئی قانون نہیں تھا ۔

اس لئے وزارت قانون ، انصاف اور انسانی حقوق نے 2015 میں متعلقہ وزارتوں ، ڈویژنوں ، قومی کمیشن برائے خواتین اور ہندو کمیونٹی کے نمائندوں کی باہمی مشاورت سے ہندو میرج بل کا حتمی مسودہ تیار کیا ۔ وزارت نے مذہبی امور اور بین الامذاہب ہم آہنگی سے ایک این او سی بھی حاصل کیا ہے تاکہ ہندو میرج بل 2015 کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لئے بطور ایک انتظامی وزارت کے اپنا کردار ادا کر سکے ۔

اس بل کے بنیادی پہلو ،خصوصیات ذیل میں بیان کئے جاتے ہیں ۔ یہ بل شادی کی عمر کو کم از کم 18 سال کرتے ہوئے بچوں کی شادی پر پابندی لگاتا ہے اور اسے شادی کے لئے پہلی شرط قرار دیتا ہے یہ ہندو کمیونٹی کی رسموں اور رواجوں کی حفاظت کرتا ہے تاہم ایسی ر سموں کو پائیدار ہونا چاہئے اور انہیں اخلاقیات سے ناموافق اور مخالف نہیں ہونا چاہئے ۔ یہ ہندوؤں کی شادیوں کے لئے ایک نظام فراہم کرتا ہے جس میں شادی کے انعقاد کے لئے شرائط موجود ہوتی ہیں اور شادی کے ختم کرنے کے طریقہ کار کا ذکر کیا جاتا ہے اور وہ بنیادی وجوہات بھی بیان کی جاتی ہیں جن کی وجہ سے ایسی شادیاں ختم کی جا سکتی ہیں ۔

یہ عدالتی علیحدگی کا تصور فراہم کرتا ہے جہاں شادی صحیح سلامت رہتی ہے تاہم قانون ، فریقین کو بغیر بیاہ کے آپس میں رہنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ طلاق کا تصور ہندوازم میں موجود نہیں اس لئے طلاق کے لفظ کی بجائے شادی کی منسوخی کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ۔ اعادہ حقوق زنا شوئی ( کسی فریق کو وہ شے واپس کر دینا جس سے وہ محروم کیا گیا ، تلافی واپسی ) کے تصورات فراہم کئے گئے ۔ بل میں غیر قانونی اور قانونی شادیوں کی تشریح کی گئی اور ان کو خطاب کیا گیا ۔ ہندوؤں کی قانونی اور غیر قانونی شادیوں سے پیدا ہونے والے بچوں کی وارثت کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا ۔ #/s#۔(جاوید)