اپوزیشن کاچار روزہ پری بجٹ بحث کے دوران دوسری مرتبہ وزیر خزانہ اور پارلیمانی سیکرٹری کی ایوان میں عدم موجودگی پر احتجاج

جمعرات 2 اپریل 2015 16:13

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔02 اپریل۔2015ء) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن نے چار روزہ پری بجٹ بحث کے دوران دوسری مرتبہ صوبائی وزیر خزانہ اور متعلقہ پارلیمانی سیکرٹری کی ایوان میں عدم موجودگی پر شدید احتجاج کیا جس پر قائمقام اسپیکر سردار شیر علی گورچانی نے بھی نوٹس لیتے ہوئے ناراضی کا اظہار کیا ،اپوزیشن کے احتجاج اور قائمقام اسپیکر کی ناراضی کے اظہار کے کچھ دیر بعد وزیر خزانہ ایوان میں پہنچ گئے ، اراکین اسمبلی نے منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لاہور اور اپر پنجاب کے منصوبے دو سے تین ماہ میں مکمل کر لئے جاتے ہیں جبکہ جنوبی پنجاب کے منصوبے کئی کئی سال گزرنے کے باوجود پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتے ، وقفہ سوالات کے دوران ایوان کو بتایا گیا ہے کہ 100ارب روپے لاگت کے ”خادم اعلیٰ رورل روڈ پروگرام “کامنصوبہ اسی ہفتے شروع کر دیا جائے گا جسے 2018ء تک مکمل کیا جائے گا ۔

(جاری ہے)

پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز بھی اپنے مقررہ وقت دس بجے کی بجائے ایک گھنٹہ پانچ منٹ کی تاخیر سے قائمقام اسپیکر سردار شیر علی گو رچانی کی صدارت میں شروع ہوا ۔ صوبائی وزیر ملک تنویر اسلم اعوان نے محکمہ مواصلات و تعمیرات سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ۔ حکومتی رکن شیخ علاؤ الدین نے ضمنی سوال کے دوران کہا کہ یہاں جو بھی معزز رکن بات کرتا ہے اس کا مقصد عوام کی بہتری ، ایوان کے عزت و وقار میں اضافہ اور حکومتی معاملات میں اصلاح ہوتا ہے ۔

نیاز بیگ فلائی اوور لاہور کا منصوبہ ناقص منصوبہ بندی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔2006ء میں یہ منصوبہ سوا دو ارب روپے کی لاگت سے شروع کیا گیا جو انوائرمنٹ سڑٹیفکیٹ کے بغیر شروع کیا گیا ۔ حالانکہ احسان اللہ جوہر نے جو منصوبہ پیش کیا تھا اس کے تحت اس منصوبے کی لاگت صرف پچاس کروڑ روپے بنتی تھی اوراسکے لئے ایک انچ اراضی ایکوائر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

میں خود بھی اس کے خلاف عدالت میں گیا اور ہائیکورٹ میں اس منصوبے کا کاؤنٹر پلان دیا گیا ۔ مولانا شوکت علی روڈ کو ملتان روڈ سے ملانے کے لئے جو منصوبہ بندی کی گئی وہ ناقص تھی ،اس روڈ پر خوش قسمتی سے ہی کوئی بچ سکتا ہے ۔ اس منصوبے میں جن لوگوں سے زمینیں لی گئیں انہیں تین لاکھ روپے مرحلہ کے حساب سے ادائیگی کی گئی حالانکہ ان کا مارکیٹ ویلیو کے حساب سے کلیم پچیس سے تیس لاکھ روپے مرلہ بنتا ہے اور اب تک کئی کلیم پڑے ہیں اور سپریم کورٹ کی سونے کے بدلے سونا کی رولنگ موجود ہے اور حکومت کو کلیم کی ادائیگیاں کرنا پڑیں گی ۔

انہوں نے کہا کہ میں نے اس وقت کہہ دیا تھاکہ اس سے رائیونڈ سے یتم خانہ جانے والی ٹریفک کا حل نہیں ہوگا ۔ بتایا جائے گلبرگ کا منصوبہ کیوں روکا گیا ؟۔ قائمقام اسپیکر نے کہا کہ اب یہ منصوبہ بن گیا ہے آپ اسکی اصلاح کے لئے کوئی تحریک لے آئیں یا کوئی تجویز دیں جبکہ قائمقام اسپیکر نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ آپ اگر عدالت میں گئے تھے تو پھر اس سے پیچھے کیوں ہٹے جس پر شیخ علاؤ الدین نے کہا کہ 2008ء میں ہماری حکومت آ گئی تھی جسکے بعد وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ منصوبہ شروع ہو چکا ہے اب اسے بننے دیں ۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ شیخ علاؤ الدین کو سراہاتا ہوں کہ وہ ہمیشہ عوام کی فلاح و بہبود کی بات کرتے ہیں ۔ اس منصوبے کے کلیم میں چوبیس لوگ عدالتوں میں گئے جن میں سے تیئس رقم وصول کر چکے ہیں جبکہ ایک ایسا ہے جس نے رقم وصول نہیں کی ۔ شیخ علاؤ الدین نے کہا کہ تعداد اور کلیم کے حوالے سے محکمہ اس معاملے کو دبانا چاہتا ہے ۔ جس پر قائمقام اسپیکر نے ہدایت کی کہ صوبائی وزیر اورشیخ علاؤ الدین بیٹھیں اور خرابیاں دور کرنے کیلئے جو ہو سکتا ہے ان کا حل تلاش کریں ۔

صوبائی وزیر نے ایوان کو آگاہ کیا کہ فیصل آباد تا ملتان براستہ سمندری ‘ رجانہ ‘ پیر محل ہائی وے کو فیز وائز تعمیر کیا جارہا ہے اور پہلے فیز کے تین گروپ بنائے گئے ہیں جن میں ساڑھے کلو میٹر کی تعمیر کے لئے 150ملین کی ایلوکیشن کر دی گئی ہے۔ فیز ٹو میں 17کلو میٹر کی تعمیر ہے جسکی پری کوالیفکشن ہو چکی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں جیسے ہی محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ سے رقم ملتی جائے گی اسے مکمل کرتے جائیں گے اور اس منصوبے کو جلد از جلد مکمل کر لیا جائے گا ۔

میاں محمد اسلام اسلم کے سوال کے جواب میں صوبائی وزیر نے ایوان کو آگاہ کیا کہ خانیوال سے لودھراں تک دوریہ سڑک کے منصوبے کی لاگت کا تخمینہ8.16ارب روپے لگایا گیا ہے ،بڑا منصوبہ ہونے کی وجہ سے حکومت اسے پی پی پروگرام کے تحت تعمیر کرنا چاہتی ہے اس کے لئے پانچ فرمیں پری کوالیفائی ہو چکی ہیں ،یہ فرمیں ٹیکنیکل اور دیگر معاملات پر فزیبلٹی دیں گی جسکے بعد اگلے مالی سال میں اس پر آغاز کر دیا جائے گا۔

حکومتی رکن محمد عامر اقبال شاہ نے کہا کہ لاہور میں شاہرا ہیں دو سے تین ماہ میں مکمل ہو جاتی ہیں جبکہ اپر پنجاب کے منصوبوں کی تکمیل کی رفتار بھی اسی طرح ہوتی ہے جنوبی پنجاب میں منصوبے کیوں سالوں تاخیر کا شکار رہتے ہیں جس پر صوبائی وزیر نے کہا کہ پنجاب حکومت بلا تفریق صوبے میں ترقیاتی کام کرا رہی ہے اور تیس جون تک اس مد میں 115ارب روپے کی خطیر رقم رکھی گئی ہے ۔

انہوں نے بتایا کہ 100ارب کی لاگت سے خادم اعلیٰ رورل روڈ پروگرام اسی ہفتے شروع ہو جائے گا اور اسے 2018ء تک مکمل کیا جائے گا جبکہ فارم ٹو مارکیٹ روڈز منصوبے کے تحت بھی شاہراہوں کو کارپٹ کرنے اور انکی وسیع کرنے کے لئے منصوبہ شروع ہے ۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ تعمیرات و مواصلات کے ذمے صوبے کی 11ہزار کلو میٹر شاہراہیں جن کی حالت تسلی بخش ہے جہاں تک ضلعی انتظامیہ کے ذمے 74ہزار کلو میٹر کی شاہراہیں ہیں انکی شکایات موجود ہیں ۔

اجلاس کے دوران میاں محمد اسلام اسلم نے کہا کہ میں نے ایک کام کے سلسلہ میں ڈی او روڈز کو متعدد بار رابطہ کیا لیکن انہوں نے میرا فون اٹینڈ نہیں ،معلوم نہیں بیورو کریٹ ہمیں اچھا سمجھتے ہیں یا نہیں ۔ جس پر صوبائی وزیر نے ایوان میں یقین دہانی کرائی کہ اس کا نوٹس لیا جائے گا اور اس سے باز پرس کی جائے گی ۔ اس موقع پر حکومتی رکن شیخ علاؤ الدین نے قائمقام اسپیکر کی توجہ رولز آف پروسیجر کی طرف مبذول کراتے ہوئے کہا کہ اکثر اراکین کی شکایات ہے کہ افسران انکے فون نہیں سنتے یا انہیں سے اچھے طریقے سے ڈیل نہیں کرتے ۔

اسکے لئے اسمبلی اجلاس کی ضرورت نہیں آپکے پاس اختیار ہے کہ آپ افسران کو بذریعہ فون بلا لیں اور ان سے باز پرس کریں اگر آپ اراکین کی عزت کا دھیان نہیں رکھیں گے تو شکایات آتی رہیں گی جس پر قائمقام اسپیکر نے کہا کہ اسپیکر صاحب اس کا نوٹس لے چکے ہیں اور انہوں نے اس طرہ کی متعدد شکایات کا نوٹس لیا ہے جبکہ میں بھی اس حوالے سے نوٹس لیتا ہوں۔

سرکاری کارروائی کے دوران پری بجٹ پر بحث کا آغاز ہونے پر پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی خواجہ محمد نظام المحمود نے کہا کہ ایوان میں وزیر موجود ہیں نہ پارلیمانی سیکرٹری میں کس سے اپنی گزارشات پیش کروں ۔ ہم 300میل کا سفر طے کر کے اپنے حلقے کی عوام کی بات کرنے آتے ہیں کوئی اسمبلی سیشن دیکھنے نہیں آتے ۔ جس پر قائمقام اسپیکر سردار شیر علی گورچانی نے صوبائی وزیر اور متعلقہ پارلیمانی سیکرٹری کی ایوان میں عدم موجودگی پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے سینئر صوبائی وزیر راجہ اشفاق سرور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب کیا کرنا چاہیے ۔

جس پر راجہ اشفاق سرور نے کہا کہ معزز رکن نے جو بات کی ہے وہ درست ہے کہ وزیر پارلیمانی سیکرٹری موجود نہیں جبکہ گیلری میں بھی افسران نظر نہیں آرہے اگر آپ چاہیں تو اس بحث کو کل تک لیجائیں ۔ (ق) لیگ کے عامر سلطان چیمہ نے قائمقام اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پری بجٹ بحث کے دوران آپ پہلے بھی اس معاملے پر اپنی رائے کا اظہار کر چکے ہیں ۔

ایسا لگتا ہے کہ اراکین کی تجاویز کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا اور انہیں اہل ہی نہیں سمجھا جاتا ۔ راجہ اشفاق سرور نے کہا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ گیلری میں محکمہ پی اینڈ ڈی اور محکمہ فنانس کے افسران موجود ہیں اور میں یقین دلاتا ہوں کہ اراکین جو بھی تجاویز اور سفارشات پیش کریں گے انہیں زیر غور لایا جائے گا تاہم اسی دوران صوبائی وزیر خزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمن بھی ایوان میں پہنچ گئے اور مخدوم نظام المحمود نے اپنی بحث کا آغاز کیا ۔

انہوں نے کہا کہ جتنا ترقیاتی منصوبوں پر راولپنڈی اور اور لاہور کی عوام کا حق ہے اتنا ہی ڈی جی خان کا بھی حق ہے ۔ ترقیاتی سکیموں میں دور دراز کے اضلاع کو بھی شامل کیا جائے ۔ ملک احمد سعید خان نے کہا کہ حکومت نے محدود وسائل کے باوجود سوشل سیکٹر ‘ انفراسٹر اکچر اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے بہت کام کیا ہے لیکن صحت کے شعبے میں انتہائی کسمپرسی کی حالت ہے ۔

لاہور کے ہسپتالوں میں مریضوں کے لئے بیڈز نہیں۔ میرا مطالبہ ہے کہ یونین کونسل کی سطح پر بوائز اورگرلز ہائی سکول ہونے چاہئیں ۔ اساتذہ نے ہماری آنیوالی نسلوں کی تربیت کرنی ہوتی ہے انہیں تربیت دلائی جائے تاکہ وہ ذہن سازی کا کام کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ 70فیصد آبادی کا تعلق دیہاتوں اور زراعت سے ہے لیکن اس شعبے کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔

ایسا میکنزم بنایا جائے کہ صرف گندم نہیں بلکہ کپاس‘ مونجی ‘ آلو سمیت دیگر اجناس حکومتی سطح پر خریدی جائیں تاکہ کاشتکاروں کو انہیں تحفظ مل سکے ،حکومت کو پرائس سکیورٹی کے لئے کام کرنا ہوگا۔ فوزیہ ایوب قریشی نے کہا کہ آئندہ بجٹ میں چولستان میں پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لئے منصوبوں شامل کر کے رقم رکھی جائے ۔ میاں محمد اسلام اسلم نے کہا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو چالیس ارب روپے کا قرضہ دیدیا گیا لیکن کسانوں کو نظر اندا ز کیا گیا۔

کاشتکاروں کے لئے سبسڈی کی مد میں 10ارب روپے رکھے گئے لیکن بتایا جائے اس کا فائدہ کہاں تک پہنچایا گیا ۔ سوتی دھاگے پر بھارت کے کسان کو 400 کا فائدہ ہوا جبکہ پاکستانی کسا ن کو500کا نقصان ہوا ، جی ایس پی پلس کا سارا فائدہ بھارت لے گیا ۔ کسی صوبے میں زرعی انکم ٹیکس نہیں جبکہ پنجاب میں اس کا نفاذ کیا گیا ہے ۔دیگر شعبوں کے لوگ 4لاکھ آمدنی پر ٹیکس دیتے ہیں کسان سے 80ہزار کی آمدنی پر ٹیکس لیا جاتا ہے ۔

اگر زرعی شعبے کی طرف توجہ نہ دی گئی تو کسان سڑکوں پر آئے گا ۔حکومت نے بہت سے شعبوں میں اچھے اقداما ت اٹھائے ہیں لیکن حکومت کسانوں کو مراعات اور سہولیات دینے میں ناکام ہو گئی ہے ۔ مطالبہ ہے کہ زمینداروں کیلئے ٹیکس فری بجٹ دیاجائے ۔ بحث میں دیگر اراکین نے بھی حصہ لیا جسکے بعد اجلاس آج جمعہ صبح نو بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا۔

متعلقہ عنوان :