بھارت، بابری مسجد مقدمے میں ایڈوانی سمیت 20 افراد کو نوٹس

منگل 31 مارچ 2015 20:51

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔31مارچ۔2015ء) بھارت کی عدالت عظمیٰ نے تاریخی بابری مسجد منہدم کیے جانے والے دیرینہ معاملے میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینیئر رہنماوٴں لال کرشن ایڈوانی اور مرلی منوہر جوشی سمیت 20 افراد کو نوٹس جاری کیے ہیں۔جن لوگوں کو نوٹس جاری کیا گیا ہے، ان میں پارٹی کے معروف رہنما کلیان سنگھ اور اوما بھارتی بھی شامل ہیں۔

کلیان سنگھ فی الوقت شمالی ریاست ہماچل پردیش کے گورنر ہیں اور اوما بھارتی مرکزی وزیر ہیں۔چھ دسمبر 1992 کو انتہاپسند رجحان رکھنے والے ہندووٴں نے بابری مسجد کو مسمار کر دیا تھا جس کے بعد ملک کے کئی حصوں میں فرقہ وارانہ ہندو مسلم فسادات بھڑک اٹھے تھے اور درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔سپریم کورٹ نے اس معاملے میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کرتے ہوئے تازہ نوٹس جاری کیے۔

(جاری ہے)

یہ اپیل حاجی محمود نامی شخص نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر کی تھی جس میں بابری مسجد منہدم کیے جانے کے معاملے میں مذکورہ افراد کے خلاف سازش کا الزام ہٹا دیا گیا تھا۔اس سے قبل بابری مسجد پر آنے والے ہائی کورٹ کے فیصلے میں بی جے پی کے بیشتر سرکردہ رہنماوٴں کو الزام سے بری کر دیا گیا تھا ۔چیف جسٹس ایچ ایل دتّو اور جسٹس ارون مشرا پر مشتممل بینچ نے نوٹس کا جواب دینے کے لیے سی بی آئی اور دیگر لوگوں کو چار ہفتے کا وقت دیا ہے۔

بابری مسجد سنہ 1528 میں مغل بادشاہ بابر کے دور میں تعمیر ہوئی تھی۔ ہندووٴں کا دعویٰ ہے کہ اس مقام پر پہلے رام مندر تھا اور یہ ان کے بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے۔موٴرخین کے مطابق مندر مسجد کے تنازع نے پہلی مرتبہ سنہ 1853 میں تشدد کی شکل اختیار کی اور چھ سال بعد 1859 میں برطانوی حکمرانوں نے ایک باڑ تعمیر کرا کر مسجد کے اندرونی احاطے میں مسلمانوں کو اور باہر کے احاطے میں ہندوٴں کو عبادت کی اجازت دی تھی۔ہندووٴں نے 1984 میں وشو ہندو پریشد کے پرچم تلے اس رام جنم بھومی کو بقول ان کے آزاد کرانے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی اور بعد میں اس تحریک کی قیادت بی جے پی کے سربراہ لال کرشن اڈوانی نے سنبھال لی تھی۔

متعلقہ عنوان :