لال مسجد کے پیش امام نے 12 سال بعد ضمانتی خط جمع کرادیا

جمعرات 26 مارچ 2015 12:44

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔26مارچ۔2015ء ) لال مسجد کے پیش امام عبدالعزیز نے اسلام آباد پولیس کو تحریر طور پر معافی نامہ نہیں جمع کرایا ہے، بلکہ ایک ’ضمانتی خط‘ جمع کرادیا ہے، یاد رہے کہ یہ خط انہیں تقریباً بارہ سال قبل اس وقت جمع کرانا تھا، جب ان کا نام پہلی مرتبہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے فورتھ شیڈیول کی واچ لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔

محکمہ پولیس اور وزارتِ داخلہ کے ذرائع نے میڈیا کو بتا یا کہ دسمبر میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد مولانا عبدالعزیز نے ایک ضمانتی خط اپنے لیٹرہیڈ پر اسلام آباد پولیس کو جمع کرایا ہے۔یاد رہے کہ اس حملے کے بعد مولانا عبدالعزیز نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کی مذمت سے انکار کردیا تھا، اور ایک خطبے کے دوران کہا تھا کہ یہ حملہ کالعدم تنظیموں کے خلاف فوجی آپریشن کا ردّعمل تھا۔

(جاری ہے)

سول سوسائٹی کے شدید احتجاج اور ان کی گرفتاری کے مطالبے کے بعد وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے معافی نامہ پیش کردیا ہے۔پولیس نے حکومتی ہدایات پر لال مسجد کے پیش امام کو خبردار کیا تھا کہ انہیں ایک ضمانتی خط جمع کرانا چاہیے، جس میں اپنے ’اچھے رویّے‘ کی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ضمانت دی گئی ہو، جو کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے فورتھ شیڈیول کے تحت انہیں جمع کرانا لازم تھا۔

حکام کا کہنا ہے کہ ”مولانا عزیز کو خبردار کردیا گیا تھا کہ اگر انہوں نے ضمانت جمع کرانے میں ناکام رہے تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔“یہ ضمانتی خط چند لائنوں پر مشتمل ہے۔ جس میں مولانا عزیز نے کہا ہے کہ وہ اسلام آباد میں پچھلے پچاس برسوں سے رہائش پذیر ہیں اور انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ملک کے قانون کا احترام کرتے ہیں، اور دارالحکومت کی انتظامیہ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، اور ان کا کالعدم تنظیموں یا اس کے کارکنوں یا اس طرح کے کسی گروہ سے کسی قسم کا تعلق نہیں ہے۔

اس ضمانتی خط میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے فورتھ شیڈیول کی واچ لسٹ میں اپنا نام شام لیے جانے کے فیصلے پر اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے اور مزید یہ کہ اس معاملے پر فیصلہ آنے تک وہ پولیس کو اپنی نقل و حرکت اور جائے قیام کے بارے میں مطلع کرتے رہیں گے۔تاہم اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر مولانا عزیز نے پہلے ہی ضمانتی خط کیوں نہیں جمع کرایا۔

پولیس افسران کا کہنا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کے ایکٹ کے مطابق ایسا شخص جس کا نام فورتھ شیڈیول کی واچ لسٹ میں شامل ہو، وہ اپنے اچھے رویّے کی ضمانت جمع کرائے گا، جو اس کے آبائی قصبے کی ضلعی پولیس کو مطمئن کرسکے۔فورتھ شیڈیول انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن گیارہ ای ای سے متعلق ہے، جس کا عنوان ’افراد پر پابندی‘ ہے۔ اس کے دو ذیلی سیکشن میں ایک ہی طرز کا بیان ہے کہ ”ایسے افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے رہائشی علاقے یا کاروبار کے مقام کی حدود میں ضلعی پولیس افسر کو مطمئن کرنے کے لیے اپنے اچھے رویّے کی ایک یا زائد ضمانت جمع کرائے۔

“اس ضمانت میں اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے کہ وہ دہشت گردی کی کسی کارروائی میں ملوث نہیں ہے اور کسی بھی انداز میں ممنوعہ تنظیم کے مقاصد کو آگے نہ بڑھایا ہے، ذیلی سیکشن ون میں کہا گیا ہیکہ اس کی مدت تین سال سے زیادہ طویل نہ ہو۔اگر ایسافرد ضمانت جمع کرانے میں نام رہا یا ڈسٹرکٹ پولیس افسر کو مطمئن کرنے کے لیے ایک یا زائد ضمانت پیش نہ کرسکا، تو یہ آفیسر اس شخص کی گرفتاری کا حکم دے سکتا ہے، اور چوبیس گھنٹوں کے اندر عدالت کے سامنے پیش کرے گا، جو اسے حکم دے گی کہ اس شخص کو اس وقت تک حراست میں رکھا جائے، جب تک کہ یہ ضمانت پیش نہ کردے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مولانا عزیز کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے فورتھ شیڈیول میں 2002ء کے دوران شامل کیا گیا تھا، اور قانون کے تحت وہ ضمانت جمع کرانے کے پابند تھے، لیکن ماضی میں وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔پولیس کا حق تھا کہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی، جیسے کہ انہیں حراست میں لیا جاتا یا گرفتار کرلیا جاتا، لیکن ان کے خلاف ایسی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

ایسا کیوں نہیں کیا گیا، اس بات کی وضاحت کرنے سے قاصر ایک پولیس آفیسر نے کہا کہ کچھ سرکاری معاملات ہمارے اختیار سے باہر ہیں۔“مولانا عزیز نے سولہ دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کا جواز پیش کیا تھا، اس سال کی ابتداء میں اپنے امریکی وزٹ کے دوران وزیرداخلہ نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ایک تحریری معافی نامہ پولیس کو جمع کرادیا ہے۔تاہم مذکورہ اہلکار نے اپنا موٴقف برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ ”یہ معافی نامہ نہیں ہے، بلکہ اچھے رویّے کی ایک ضمانت ہے۔