شفقت حسین کیس‘ پاکستان میں سزائے موت پر پابندی لگوانے کے لئے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے‘ این جی ا وز کی لڑائی کی وجہ سے کئی لکھے پڑھے پاکستانی بے وقوف بن گئے‘ میڈیا رپورٹس

بدھ 25 مارچ 2015 15:00

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔25مارچ۔2015ء) سزا یافتہ قاتل شفقت حسین کا کیس کچھ غیر ملکی امداد پر چلنے والی این جی اوز اور بین الاقوامی میڈیا کی جانب سے اٹھایا جا رہا ہے اور اس میں پاکستان میں سزائے موت پر پابندی لگوانے کے لئے حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کیا جا رہا ہے۔ ان اطلاعات کے بعد وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کیس ایف آئی اے کے حوالے کر دیا ہے۔

میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے سات سالہ لڑکے کے قاتل کی عمر کے تنازع اور متعلقہ امور کے سلسلے میں تحقیقات کرے گی لیکن اس بات کا کوئی اشارہ نہیں مل رہا کہ غیر ملکی امداد پر چلنے والی این جی اوز سے بھی پوچھا جائے گا جنہوں نے جان بوجھ کر مقامی و غیر ملکی میڈیا کو استعمال کر کے حتیٰ کہ اقوام متحدہ کو بھی بیوقوف بنا کر یہ بات پھیلائی کہ جس وقت شفقت نے قتل کیا تھا وہ نابالغ تھا۔

(جاری ہے)

پولیس جیل حکام اور عدالتی ریکارڈ کے مطابق جس وقت شفقت نے قتل کیا اس وقت اس کی عمر 23 سال تھی یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے اس نے یا اس کے کسی نمائندے نے کسی بھی عدالتی فورم پر چیلنج نہیں کیا۔ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ 2004ء میں جیل حکام کی جانب سے قاتل کی جو تصویر لی گئی تھی اس میں واضح تھا کہ فوٹو میں کوئی 14 سال کا لڑکا نہیں بلکہ ایک نوجوان آدمی کھڑا ہے۔

گرفتاری کے وقت شفقت کسی بھی طرح سے 14 سال کا لڑکا نہیں لگ رہا تھا۔ عمر کے لحاظ سے قاتل لڑکے کی بجائے ایک آدمی لگ رہا تھا اس کے برعکس بھی دیکھا جائے تو گرفتاری کے وقت شفقت کا رویہ غنڈے بدمعاش اور چالاک قاتل جیسا تھا کیونکہ متعدد مرتبہ پولیس کو چکمہ دینے کی کوشش کی تھی لیکن بالآخر اس نے اپنا جرم قبول کر لیا۔ گزشتہ 11 سال کے دوران مجرم کی عمر کا معاملہ کبھی سامنے نہیں آیا لیکن اچانک ہی آزاد جموں کشمیر کی ٹاؤن کمیٹی نے شفقت کا پیدائشی سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جس کی وجہ سے معاملہ سامنے آنے کی بجائے مزید الجھ گیا۔

رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ این جی اوز کی اس لڑائی کی وجہ سے کئی پڑھے لکھے پاکستانی بے وقوف بن گئے ہیں اور یہ معاملہ ”بے گناہی“ اور غلط سناخت کا نہیں ہے۔ پولیس‘ جیل اور عدالتی ریکارڈ کو نظر انداز کرتے ہوئے قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان اور اس کی سزائے موت پر پالیسی کے خلاف ایک مہم شروع کر دی گئی ہے۔”بچہ مجرم کو پھانسی مت دو“ جیسے نعرے ایسے تھے جو مغربی ممالک اور نام نہاد حقوق انسانی کی تنظیموں کے لئے پرکشش تھے۔

متعلقہ عنوان :