اسلام آباد ہائی کورٹ کا آئی جی اسلام آباد طاہر عالم خان پر سخت برہمی کا اظہار

اسلام آباد پولیس کے انوسٹی گیشن آفیسر انتہائی نااہل ہیں عدالت میں کیس کاریکارڈ پیش کرنے کے لئے قانون معلوم تک نہیں ہوتا ۔

منگل 24 مارچ 2015 17:30

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔24مارچ۔2015ء) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے آئی جی اسلام آباد طاہر عالم خان پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد پولیس کے انوسٹی گیشن آفیسر انتہائی نااہل ہیں عدالت میں کیس کاریکارڈ پیش کرنے کے لئے قانون معلوم تک نہیں ہوتا ۔ پولیس کام نہیں کرتی بعد میں کہتے ہیں عدالت ملزموں کو چھوڑ دیتی ہے ۔

آئی جی کو پولیس افسران سے معلوم کرنا چاہئے کیا موٹر سائیکل میں پیٹرول اپنی جیب سے ڈلواتے ہیں یا ملزم کی جیب سے ۔ پولیس آفسران کو سپریم کورٹ کے فیصلوں کی اردو میں ترجمہ کر کے دینے کا حکم ۔ پولیس کام نہیں کر سکتی تو کیس کی رجسٹریشن بنا کر دیں ۔ پیر کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی جی اسلام آباد طاہر عالم کو منشیات کیس میں ذاتی طور پر عدالت میں طلب کیا تھا کیس کی سماعت جسٹس نورالحق این قریشی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کی ۔

(جاری ہے)

آئی جی اسلام آباد طاہر عالم اے آئی جی اظہر شاہ عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد میاں عبدالرؤف عدالت میں پیش ہوئے ۔ ابتدائی سماعت کے دوران عدالت نے آئی جی اسلام آباد سے استفسار کیا کہ منشیات کیس میں پولیس افسران کیا سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق سمپیل ملتے ہیں ۔ 10 کلو گرام منشیات میں پولیس نے 20 گرام سمپیل بھی لیے ۔

سپریم کورٹ نے منشیات سمپل لینے کا فارمولا طے کیا ہو اہے آئی جی اسلام آباد طاہر عالم خان نے عدالت میں پولیس کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ پولیس کے پاس منشیات کیسوں میں لئے گئے سمپیل لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کروانے کے لئے فنڈ کی کمی ہے کتنی بار وزارت داخلہ اور حکومت کو آگاہ کیا لیکن ابھی تک عملدرآمد نہیں ہوا ۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ جو بھی منشیات پکڑتی ہے اور سمپیل لے کر لاہور لیبارٹری میں بھیج دیتی ہے اور وہاں پولیس آفیسر یا تفتیشی آفسر کو جانے کے لئے اخراجات کا خرچہ 5 ہزار روپے کے قریب بنتا ہے اور پنجاب حکومت اسلام آباد سے بھیجے گئے کیسز میں تقریباً فی سمپل 5 ہزار روپے لیتی ہے جو کہ زیادہ ہے اور تفتیشی آفیسر کی رہنمائی کے لئے سینئر ترین آفیسر پر ایک اتھارٹی مقرر ہو جو تفتیشی آفسران کو لیکچر دے ۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ منشیات کیس میں سمپل لینے کے لئے سپریم کورٹ نے فارمولا طے کیا ہوا ہے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا اردو ترجمہ کر کے پولیس کے تفتیشی آفسران کو دے اور بعد میں ان کا ٹیسٹ لیں اگر کوئی آفسر پاس نہیں کرتا تو ترقی روک دیں ۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ اسلام آباد پو لیسکے انوسٹی گیشن آفیسر انتہائی نااہل ترین ہیں عدالت نے آئی جی سے پوچھا کیا منشیات کے سمپل کی ٹیسٹنگ کے لئے اسلام آباد لیبارٹری میں سہولت موجود نہیں ہے آئی جی نے جواب دیا کہ کوئی سہولت نہیں ہے ۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ یہ کس طرح ہو رہا ہے عدالت مقدمہ کے رجسٹریشن کے متعلقہ کہہ رہی ہے پولیس والے عدالتوں میں ضمنی اور ریکارڈ ملزمان کا غلط پیش کرتے
ہیں ۔ اجلاس میں کہا جاتا ہے کہ عدالت ملزمان کو چھوڑ دیتی ہیں آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ منشیات میں لئے گئے سمپل کی ٹیسٹنگ کے لئے حکومت اور اعلی حکام سے بات کریں گے اور عدالتی حکم پر عملدرآمد کیا جائے گا ۔ عدالت نے مختلف فیصلہ کے بعد کیس کی سماعت ملتوی کر دی