روایات کے برعکس جنازہ عورتوں نے اٹھایا

اتوار 22 مارچ 2015 21:45

روایات کے برعکس جنازہ عورتوں نے اٹھایا

کابل(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔22مارچ۔2015ء)قرآن کی بے حرمتی کے بظاہر جھوٹے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں کابل میں ماری جانے والی خاتون کے جنازہ افغان اور اسلامی روایات کے برعکس عورتوں نے اٹھایا۔ فررخندہ نامی اس خاتون کے جنازے میں سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی اور ان کے قاتلوں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ سرکاری تفتیش کار کا کہنا ہے کہ فرخندہ پر قرآن جلانے کا جو الزام لگایا گیا ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

خیال رہے کہ اس عورت پر حملے اور پولیس کی جانب سے عدم مداخلت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ انھوں نے قتل کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ فرخندہ پر ہونے والے حملے کی فلم کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بڑے پیمانے پر شیئر کیا گیا۔

(جاری ہے)

واضع رہے کہ مردوں کے ایک ہجوم نے اس عورت کو ڈنڈے اور پتھر مار کر قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کو جلا دیا تھا اور پولیس نے اسے ہجوم سے بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ہجوم نے اس عورت پر قرآن جلانے کا الزام لگایا تھا۔شادو شمشیرا مسجد اور مقبرے کے پاس پیش آنے والا یہ سانحہ افغانستان میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔اتوار کو ہونے والے جنازے میں سرگرم خواتین کارکنوں نے فرخندہ کا کفن خود اٹھایا ہوا تھا جو کہ افغان روایات کے برعکس ہے کیونکہ یہ کام عموماً مرد کرتے ہیں۔ افغان وزارتِ داخلہ کے اعلی اہلکار جنرل محمد ظاہر کے مطابق قرآن جلائے جانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’فرخندہ بلکل بےگناہ تھی اور اس کے قتل کے الزام میں ہم نے 13 افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں آٹھ پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔‘ پہلے دعوی کیا گیا تھا کہ فرخندہ کا دماغی توازن درست نہیں تھا لیکن اسے کے بھائی نے خبر رساں ادارے روائٹرز سے بات کرتے ہوئے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی بہن مذہبی استانی بننے کی تربیت حاصل کر رہیں تھیں۔ فرخندہ کے بھائی کا مزید کہنا تھا کہ ان کی موت کی خبر سننے کے بعد باقی خاندان کی حفاظت کے پیشِ نظر ان کے والد نے فرخندہ کو ذہنی مریض قرار دیا تھا۔