ماڈل کسٹم کلکٹر (محکمہ کسٹم ) پنجاب میں اربوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ،

فراڈ اور غبن کے ذریعے قومی خزانے کو بے تحاشا نقصان پہنچایا گیا، حکومت پنجاب کی تازہ ترین آڈٹ رپورٹ

ہفتہ 21 مارچ 2015 22:19

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔21مارچ۔2015ء ) حکومت پنجاب کی تازہ ترین آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ماڈل کسٹم کلکٹر (محکمہ کسٹم ) پنجاب میں اربوں روپے کی مالی بے ضابطگیاں کی گئی ہیں اور فراڈ اور غبن کے ذریعے قومی خزانے کو بے تحاشا نقصان پہنچایا گیا ہے یہ مالی بے ضابطگیاں جعلی انوائسز پر سازوسامان کی کلیئرنس اور ڈیوٹی فری شاپس پر کم قیمت پر سامان کی فروخت کی وجہ سے سامنے آئی ہیں ۔

آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایم سی سی لاہور نے اصلی انشورنس دستاویزات کو نظر انداز کرتے ہوئے لبریکیٹنگ آئل کی تین کنسائمنٹس کلیئر کیں ۔ تصدیق کرنے پر معلوم ہوا کہ سازوسامان کی لاگت انوائس لاگت سے کئی گنا زیادہ تھی تینوں کنسٹائمٹس کی انوائس ویلیو بالترتیب 207495،287582 اور276660تھی اور جس قیمت پر سامان خریدا گیا اس کی قیمت بالترتیب 299396 ،345860 اور 415828تھی ۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس مالی بے ضابطگی کے نتیجے میں 108.58 ملین روپے کا نقصان ہوا ہے ڈیوٹی اور ٹیکسز کی عدم ادائیگی کی وجہ سے 15.51 ملین اور 9307 ملین روپے کا نقصان ہوا ۔ اعدادوشمار میں اس فرق کی نشاندہی اکتوبر 2014ء میں کی گئی ۔محکمہ کا کہنا تھا کہ تمام کیسز کی جانچ پڑتال کی جارہی ہے تاہم آڈٹ نے ڈیپارٹمنٹ کے جواب کو تسلی بخش نہیں قرار دیا اور اسے مبہمقرار دیا ۔

آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حقائق کو چھپانے کا عمل اور ڈیوٹی اور ٹیکسوں کی عدم ادائیگی کسٹم حکام کی رضا مندی کے بغیر نہیں ہوسکتی تھی جنوری 2015ء میں اکاؤنٹ کمیٹی نے محکمے کو ہدایت کی کہ وہ ان کیسز کا فوری طور پر جائزہ لے اور جامع جواب داخل کیاجائے تاہم رپورٹ آنے تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ آڈٹ میں رقوم کی پوری ریکوری اور ذمہ دار افراد کے تعین کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے اور ذمہ دار افراد کیخلاف سخت کارروائی کی سفارش کی گئی ہے آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ چین کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے میں سازوسامان کی جو شرح مقرر کی گئی تھی اس شرح پر سازوسامان کی کلیئرنس نہیں کی گئی اور اس مد میں 33.54 ملین روپے کی مالی بے ضابطگی سامنے آئی ۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان اور چین نے 2007ء میں ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت حکومت پاکستان نے ان اشیاء کو کسٹم ڈیوٹی سے مستثنیٰ قرار دیا جو چین میں تیار ہوکر پاکستان میں درآمد کی جاتی ہوں ۔ آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے اعدادوشمار میں ردبودل کیا گیا اور کسٹم کے ایسے نرخ لگائے گئے اور ان کا سسٹم میں اندراج کیا گیا جو کہ معاہدے میں طے ہی نہیں تھے اس سے درآمد کنندگان کو بے جا مالی فوائد پہنچائے گئے اور قومی خزانے کو ریونیو کی مد میں 33.54 ملین روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا تاہم ماڈل کسٹم کلیکٹر اسلام آباد نے نہ تو کسٹم اہلکاروں کیخلاف تعزیراتی کارروائی کی اور نہ ہی پرال ادارے کیخلاف کوئی ایکشن لیا جس نے کمپیوٹرائزڈ سسٹم میں ردوبدل کیا ۔

آڈٹ رپورٹ کے مطابق اکتوبر 2014ء میں اس بے ضابطگی کی نشاندہی کی گئی ایم سی سی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ رقوم کی منتقلی کے لئے ڈیمانڈ نوٹسز جاری کردیئے گئے ہیں آڈٹ رپورٹ میں اس کو منظم اور باضابطہ فراڈ قرار دیا ہے کسٹم حکام نے پرال ملازمین کے سازباز سے سرانجام دیئے اس سے کمپیوٹرائزڈ سسٹم کی سکیورٹی پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ کیسے ایک نچلے درجے کے سٹاف نے مداخلت کرکے کمپیوٹرائزڈ اعدادوشمار کے کو تبدیل کیا ۔

گزشتہ سال محکمے کے علم میں یہ بات لائی گئی تھی تاہم ابھی تک کوئی مناسب ایکشن نہیں لیا گیا ڈی اے سی نے اپنی جنوری 2011ء میں منعقدہ اجلاس میں محکمہ کو ہدایت کی کہ وہ اس معاملے کی سنجیدگی سے انکوائری کروائے اور آڈٹ حکام کو اس کے نتائج سے آگاہ کریں تاہم آڈٹ رپورٹ کے مطابق کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی آڈٹ میں کہا گیا ہے کہ رقوم کی ریکوری کو یقینی بنائی جائے اور ڈیوٹی فری شاپس پرسیلزکی انکوائری کی جائے کہ ریونیو کی مد میں کتنا نقصان ہوا آڈٹ میں ذمہ داروں کیخلاف سخت کاررروائی کی سفارش کی گئی ہے ۔

متعلقہ عنوان :