پنگریو اور گرد ونواح کے علاقوں سمیت زیریں سندھ بھر میں آموں کے باغات پر کالے تیلے کی بیماری نے حملہ کر دیا

ہفتہ 21 مارچ 2015 16:44

پنگریو (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔21مارچ۔2015ء) پنگریو اور گرد ونواح کے علاقوں سمیت زیریں سندھ بھر میں آموں کے باغات پر کالے تیلے کی بیماری نے حملہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے باغات میں لگنے والا بُور جھڑنا شروع ہو گیا ہے اس بیماری کے خاتمے کے لئے باغبانوں کی جانب سے کئے جانے والے اسپرے اور دیگر اقدامات غیر موئثر ثابت ہو رہے ہیں باغبانوں کا کہنا ہے کہ اگر کالے تیلے کی بیماری جلد ختم نہ ہوئی تو آموں کے باغات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا ادھرز رعی ماہرین نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث زرعی فصلوں کے ساتھ ساتھ اب نئے قسم کے امراض باغات پر بھی حملہ آور ہو رہے ہیں مگر ان امراض کی روک تھام کے لئے حکومتی سطح پر کوئی کوششیں نہیں ہو رہیں جس کی وجہ سے سندھ میں باغات بھی زرعی فصلوں کی طرح متاثر ہونا شروع ہو جائیں گے اور سندھ میں باغات کا نام ونشان مٹ جائے گااس ضمن میں پنگریو، شادی لارج، نندو ٹنڈو باگو، ڈیئی، راجو خانانی ، عمر کوٹ، جھڈو، نوکوٹ ، تلہار، ماتلی، کڈھن، لواری شریف اور دیگر علاقوں میں آموں کے باغات پر کالے تیلے نے حملہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے آموں کے ہزاروں ایکڑ پر مشتمل باغات متاثر ہو نا شروع ہو گئے ہیں اور ان میں لگنے والا بُور جھڑ رہا ہے اس بارے باغبانوں نے بتایا کہ کالے تیلے کے مرض کے خاتمے کے لئے انہوں نے مختلف اقسام کے زرعی اسپرے کر نے کے ساتھ ساتھ تمام تر اقدامات کئے ہیں مگر یہ مرض ختم نہیں ہورہا اور باغات میں تیزی کے ساتھ بُور جھڑ رہا ہے جس کی وجہ سے اس سال آموں کی پیداوار میں بھی کمی کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے باغبانوں نے بتایا کہ محکمہ زراعت کی جانب سے باغات پر حملہ آور ہو نے والے امراض سے بچاؤ اور ان امراض کے خاتمے کے لئے کوئی مشورے نہیں دیئے جاتے اور نہ ہی اس حوالے سے محکمہ زراعت کے افسران و عملے کو بھی معلومات ہوتی ہیں ا س لئے محکمہ زراعت کی جانب سے باغات کی بیماریوں سے بچاؤ کے لئے مشورہ مانگنے والے کاشت کار اور باغبان رہنمائی سے محروم ہیں باغبانوں کا کہنا ہے کہ کالا تیلہ باغات کے لئے بہت مہلک ثابت ہو رہا ہے باغات کو مکمل تباہی سے بچانے کے لئے اس بیماری پر فوری کنٹرول کی اشد ضرورت ہے ادھر زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث زرعی فصلوں کے ساتھ ساتھ باغات پر بھی نئے امراض حملہ آور ہو رہے ہیں مگر ان امراض سے بچاؤ اور خاتمے کے لئے محکمہ زراعت کی جانب سے کوئی کوششیں نہیں کی جارہیں ان ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر فوری طور پر باغات پر حملہ آور ہو نے والے کالے تیلے کے خاتمے کے لئے اقدامات نہ کئے گئے تو سندھ بھر میں آموں کے باغات تباہ ہو سکتے ہیں اور ہزاروں ایکڑ ز پر مشتمل باغات کا نام و نشان مٹ جائے گا واضح رہے کہ سندھ کے زیریں اور وسطی علاقوں میں آموں کے باغات سے دنیا بھر میں مشہور اور انتہائی اعلیٰ کوالٹی کے آم حاصل ہوتے ہیں جوکہ ساری دنیا میں ایکسپورٹ بھی کئے جاتے ہیں ان آموں میں سندھڑی، لنگڑا، چونسہ، رتام، دسوڑی، انور رٹول شامل ہیں مگر امراض کے حملے کے باعث ان آموں کی بقا خطرے میں پڑ گئی ہے۔

متعلقہ عنوان :