مقبوضہ و آزاد کشمیر کے درمیان کراس ایل او سی ٹریڈ کی آڑ میں کھوپرے کی سمگلنگ سے مقامی تجارت تباہ

کراچی چیمبر کا کھوپرے کو بارٹر فہرست میں شامل نہ کرنے کا مطالبہ، وزیرخزانہ کو ارسال خط میں مقامی درآمد کنندگان کو مالی نقصانات سے بچانے کی استدعا

جمعہ 20 مارچ 2015 16:45

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20مارچ۔2015ء) کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر افتخار احمد وہرہ نے کراس لائن آف کنٹرول ٹریڈکے تحت مقبوضہ کشمیر سے آزاد کشمیر کھوپرے کی ترسیل پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار سے آئٹمز کی فہرست میں کھوپرے کو شامل نہ کرنے اورمقامی تاجروں کو خطیر نقصانات سے بچانے کے لیے جنگی بنیادوں پراقدامات عمل میں لانے کی درخواست کی ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار کو ارسال کیے گئے خط میں کے سی سی آئی کے صدرنے کہا کہ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان کراس لائن آف کنٹرول ٹریڈ کے تحت مال کے بدلے مال کا معاہدہ ہے جس میں ایسی اشیاء کی تجارت کی اجازت دی گئی جن کی پیدوار مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیرمیں ہوتی ہے مگر اس معاہدے کی خلاف ورزی کی جارہی ہے ۔

(جاری ہے)

خط میں اس حوالے سے نشاندہی کرتے ہوئے بتایاگیا ہے کہ کھوپرے کی پیداوار نہ تو مقبوضہ کشمیر میں ہوتی ہے اور نہ ہی آزاد کشمیر میں البتہ جنوبی بھارت کی ریاست کیرالہ میں اس کھوپرے کی پیداوار ہوتی ہے جبکہ کھوپرا بارٹر معاہدے کے تحت مرتب کی گئی فہرست میں شامل نہیں اس کے برعکس کیرالہ سے کھوپرا پہلے مقبوضہ کشمیر لایا جاتا ہے جہاں سے بارٹر معاہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے معاہدے کی فہرست میں شامل نہ ہونے کے باوجود غیر قانونی طور پرکھوپراا ٓزاد کشمیر لایا جاتا ہے اور پھر پاکستان کے شہر راولپنڈی میں بڑی مقدار میں کھوپرا لا کر کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں کی مارکیٹوں میں فروخت کیاجاتاہے جس سے پاکستانی درآمد کنندگان اور تاجر وں کا کاروبار تباہ ہو کررہ گیاہے اور انہیں شدید مالی نقصانات کا سامنا ہے ۔

خط میں وفاقی وزیرخزانہ سے کہا گیا ہے کہ انہیں یہ جان کر دھچکا لگے گا کہ دونوں مقامات پر دوطرفہ تجارت کی آڑ میں کیا ہورہاہے ؟جو قومی خزانے کوریونیو کی مد میں ایک ارب روپے سالانہ کے خطیر نقصانات کا باعث بھی بن رہاہے اور بدقسمتی سے کراس لائن آف کنٹرول ٹریڈ کی آڑ میں کھوپرے کی اسمگلنگ سے مقامی سطح پر قانونی تجارت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔

کے سی سی آئی کے صدرنے کہاکہ 2011-12میں کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور ممبئی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی مشترکہ کاوشوں سے کراس لائن آف کنٹرول ٹریڈ سے اس آئٹم کے اخراج میں کامیابی حاصل ہوئی تھی لیکن بدعنوان عناصر نہ صرف معاہدے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں بلکہ پاکستان کی مقامی تجارت کو بھی تباہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اور اب تو یہ بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے کہ مذکورہ معاہدے کے تحت مرتب کی گئی فہرست میں کھوپرے کو شامل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جو پاکستانی تاجروں و درآمد کنندگان کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔

افتخار احمد وہرہ نے وزیرخزانہ سے تعاون طلب کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر سے آزاد کشمیر میں کھوپرے کی غیر قانونی تجارت کی روک تھام کے لیے موٴثراقدامات اٹھانے کی درخواست کرتے ہوئے استدعا کی کہ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان کراس لائن آف کنٹرول ٹریڈ معاہدے کے تحت فہرست میں کھوپرے کوکسی صورت شامل نہ کیا جائے بلکہ اس اہم مسئلے کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ غیر قانونی تجارت کی ہر سطح پرحوصلہ شکنی کی جائے اورقانونی کاروبار وتجارت کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے غیر قانونی تجارت سے سختی سے نمٹنے کے اقدامات کیے جائیں تاکہ مقامی درآمدکنندگان کے کاروبار کو محفوظ بنایا جاسکے جو قانونی طریقے سے درآمدات کرتے ہیں اور ملکی خزانے میں خطیر ریونیو جمع کراتے ہیں جس سے معیشت کے پھلنے پھولنے میں مدد ملتی ہے۔

متعلقہ عنوان :