وزیراعظم اور وفاقی وزیر داخلہ بتائیں کہ صولت مرزا کا 5گھنٹے کا بیان کس کی اجازت سے ریکارڈ کیا گیا‘ جرائم کے خاتمے کے نام پر ایم کیو ایم کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے‘یہ سونامی ہمارے اوپر سے گزر گیا تو کراچی میں پیپلز پارٹی‘ اے این پی، (ن)لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے دفاتربند ہو جائیں گے‘ آج سب کو عمران فاروق کے قاتل یاد آگئے ہیں ‘ہمیں بتایا جائے کہ پاکستان میں ہماری حیثیت کیا ہے‘ ایم کیو ایم نے جمہوریت کی بحالی اور اسے بچانے کیلئے مثالی کردار ادا کیا، کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت مجھے اور نواز شریف کو دوبارہ اٹک جیل میں اکٹھا کر دے‘موجودہ صورتحال میں قومی اداروں کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے‘سانحہ 12مئی کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے تو دیگر واقعات پر بھی بننا چاہیے

متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماء ڈاکٹر فاروق ستار کاقومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب

جمعہ 20 مارچ 2015 16:33

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20مارچ۔2015ء) متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماء ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ بتائیں کہ صولت مرزا کا پانچ گھنٹے کا بیان کس کی اجازت سے ریکارڈ کیا گیا، جرائم کے خاتمے کے نام پر ایم کیو ایم کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا جا رہا ہے، اگر یہ سونامی ہمارے اوپر سے گزر گیا تو کراچی میں پیپلز پارٹی، اے این پی،(ن)لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے دفاتربند ہو جائیں گے، آج سب کو ڈاکٹر عمران فاروق کے قاتل یاد آگئے ہیں، ہو سکتا ہے کہ قومی اسمبلی میں دوبارہ مجھے بات کرنے کا موقع نہ ملے، ہمیں بتایا جائے کہ پاکستان میں ہماری حیثیت کیا ہے، ایم کیو ایم نے جمہوریت کی بحالی اور جمہوریت کو بچانے کیلئے مثالی کردار ادا کیا، کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت مجھے اور نواز شریف کو دوبارہ اٹک جیل میں اکٹھا کر دے،موجودہ صورتحال میں قومی اداروں کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے، اگر سانحہ 12مئی کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے تو دیگر واقعات پر بھی بننا چاہیے، جن میں ایم کیو ایم کو نشانہ بنایا گیا۔

(جاری ہے)

وہ جمعہ کو یہاں قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم قومی اسمبلی کی چوتھی بڑی جماعت ہے جبکہ سینیٹ کی تیسری بڑی جماعت ہے،مگر 11 مارچ 2015سے جو رویہ اپنایا گیا اس سے لگتا ہے کہ ایم کیو ایم پر غیر اعلانیہ پابندیا عائد کی جا رہی ہے اور اس کی سیاسی سرگرمیوں کو مفلوج کیا جا رہا ہے، دراصل جرائم کے خاتمے کے نام پر ایم کیو ایم کو ختم کیا جا رہا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ جواب دیں کیا یہ قانون کے مطابق ہو رہا ہے، یہ کون سا ایجنڈا ہے جس کو آگے بڑھایا جا رہا ہے،کیا کراچی سے جرائم کے خاتمے کے نام پر ایم کیو ایم کو ہمیشہ کی طرح آزمائش سے گزارا جا رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے پارلیمانی رہنما نے کہا کہ صول تمرزا کا بیان ڈیتھ سیل میں جا کر لیا گیا، کیا کوئی قید جس کو پانچ گھنٹے بعد پھانسی دی جاتی ہو، کیا وہ جیل کے قواعد و ضوابط کے مطابق کوئی بیان دے سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صولت مرزا کا ویڈیو بیان پانچ گھنٹے پر مشتمل ہے، کیا یہ ویڈیو وفاقی وزیر داخلہ اور حکومت بلوچستان کی اجازت سے بنائی گئی ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ ایم کیو ایم نے جمہوریت کی بحالی اور جمہوریت کے استحکام کیلئے جو خدمات انجام دیں وہ دھکی چھپی نہیں، دھرنے کے دوران ایم کیو ایم جمہوریت کے ساتھ کھڑی رہی۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہمیں قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط سمجھا رہے ہیں جبکہ کراچی میں قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، میں وزیراعظم پاکستان، وزیر داخلہ سمیت مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے ہاں یا نہ میں جواب مانگ رہا ہوں کہ کیا جرائم کے خاتمے کی آڑ میں ایم کیو ایم کے خاتمے کا عمل شروع کر دیا ہے کیونکہ اس کی ذمہ داری بھی کوئی نہیں لے رہا، کراچی میں آئین و قانون اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چند ملزمن کی بجائے 120افراد کو حراست میں لیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ سزائے موت کے منتظر صولت مرزا کا بیان ریکارڈ کر کے سرعت کے ساتھ قومی میڈیا پر چلایا جاتا ہے، جیل مینوئل میں اس کی گنجائش کہاں موجود ہے، جیل مینوئل میں ڈیتھ وارنٹ جاری ہونے کے بعد سزائے موت کے قیدی سے صرف خاندان کے لوگوں کو ملنے کی اجازت ہے اور کسی کو اجازت نہیں،16سال کی مختلف عدالتوں میں مسلسل سماعت کے بعد اب کون سے حقائق چھپے رہ گئے تھے کہ جن کو منظر عام پر لانا ضروری تھا، یہ عمل بدنیتی پر مبنی ہے اور ایم کیو ایم کو دیوار سے لگانے پر اقدام کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ سب کچھ حکومت کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ آئین کے آرٹیکل 4کی خلاف ورزی ہے، اگر یہ حق صولت مرزا کو دینا ہے تو جی ایچ کیو پر حملے کے مرکزی ملزم ڈاکٹر عثمان سمیت دیگر پھانسی کے قیدیوں کو بھی دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ قانون شہادت کی شق نمبر 114کے تحت ملزم کا 324کا بیان ریکارڈ ہونے کے بعد اپنے دفاع میں وہ مزید کوئی بیان نہیں دے سکتا، یہ سب کچھ در اصل ایم کیو ایم کے قومی ترقی پسندانہ کردار کو مسخ کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ اگر کراچی میں ایم کیو ایم کے اوپر سے یہ سونامی گزر گیا تو وہاں پر اے این پی، پیپلز پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی سمیت دیگر تمام جماعتوں کے دفاتر بھی بند ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم میں کوئی عسکری ونگ نہیں ہے، یہ بات الطاف بھائی بھی کہہ چکے ہیں، صولت مرزا کے ساتھ اب عمیرصدیقی کا بیان بھی آ گیا ہے حالانکہ عمیر صدیقی کو ایک سرکاری ایجنسی کے اہلکار گرفتار کر کے لے گئے تھے، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو جمہوریت کو کوئی نہیں بچا سکے گا۔

آج وفاقی وزیر داخلہ ڈاکٹر فاروق قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی اصولی بات کر رہے ہیں لیکن اس ڈاکٹر عمران فاروق کو جس طرح سات سال تک زیر زمین رہنے کیلئے مجبور کیا گیا، وزیر داخلہ اس پر ڈاکٹر عمران فاروق کے لواحقین سے معافی مانگیں ، یہ امر باعث تعجب ہے کہ آج ہمیں ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل یاد آ رہا ہے، یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ حکومت نے عمیر صدیقی کی جے آئی ٹی رپورٹ میڈیا پر چلادی، جس نے کہا کہ ایم کیو ایم کے کہنے پر مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ کی ،لیکن 2008 سے اب تک 1200ایم کیو ایم کے لوگ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے، ان کے قاتل کون ہیں، خاص طور پر ہمارے شیعہ ساتھیوں کو نشانہ بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری پالیسی کے مطابق دہشت گردی ناقابل برداشت ہے، ہمارے کارکنوں کو گھروں سے گرفتار کیا گیا، عامر خان گرفتاری سے پہلے مطلوب نہیں تھا جبکہ گرفتاری کے ایک روز بعد مطلوبہ افراد کی فہرست میں ان کا نام آ گیا۔ انہوں نے کہا کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف، ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی رینجرز اور کور کمانڈر کراچی سے پوچھتا ہوں کہ آج میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے کیونکہ آج کراچی میں نائن زیرو کے علاوہ ایم کیو ایم کے تمام دفاتر بند ہیں، آج بھی میڈیا پر کہا جا رہا ہے کہ نائن زیرو سے ملنے والا اسلحہ بیرونی ساختہ یا نیٹو کا ہے حالانکہ نیٹو کہہ چکا ہے کہ ان کا کوئی اسلحہ چوری نہیں ہوا، تحفظ پاکستان آرڈیننس کے تحت آج سب سے زیادہ ایم کیو ایم کے کارکن جیلوں میں بند ہیں، اگر ایم کیو ایم سے پاکستان کے وجود کو خطرہ ہے تو آج میں ایم کیو ایم کو ختم کرنے کا اعلان کرتا ہوں، پاکستان کیلئے ماضی میں جن لوگوں نے 20لاکھ جانوں کا نذرانہ دیا آج انہیں پاکستان کیلئے خطرہ کہا جا رہا ہے، موجودہ آپریشن کے دوران ہمارے 40گرفتار شدہ کارکنوں کی لاشیں ملی ہیں لیکن کسی ایک کے قاتلوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ اگر 12مئی2007 کے واقعہ کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بننا چاہیے تو پھر دیگر واقعات کی تحقیقات کیلئے بھی جوڈیشل کمیشن بنانا چاہیے جن میں ایم کیو ایم کو نشانہ بنایا گیا، ہو سکتا ہے کہ قومی اسمبلی میں مجھے دوبارہ اس طرح بات کرنے کا موقع نہ ملے، ہمیں بتایا جائے کہ پاکستان میں ہماری حیثیت کیا ہے ،روز مرنا ،روز جینا ہمارے لئے مشکل ہے، یہ سلسلہ گزشتہ 30سال سے چل رہا ہے، ایسا نہ ہو کہ وقت مجھے اور نواز شریف کو اٹک جیل میں اکٹھا کردے، آج ہمارے کارکنوں سے جیل کی کھولیاں بو رہی ہیں تو کل کھولیاں آپ کیلئے اور پیپلز پارٹی کیلئے بھی ہو سکتی ہیں، کل آپ کا بھی ذوالفقار مرزا یا صولت مرزا پیدا ہو سکتا ہے، موجودہ صورتحال میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور قومی اداروں کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے جبکہ میڈیا کی بھی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ کوئی مجھے میرے کارکن وقاص کی موت کا پرسہ دے، اگر آپ آپس میں بغلگیر رہے تو پھر اٹک میں ملاقات ہو گی۔