شریف برادران کی کسانوں سے دیرینہ دشمنی ہے ،حکومت کی کوئی کارکردگی نظر نہیں آرہی ‘ چوہدری پرویز الٰہی

جمعرات 19 مارچ 2015 17:30

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔19مارچ۔2015ء) پاکستان مسلم لیگ (ق)کے مرکزی رہنماو سابق ڈپٹی وزیر اعظم چوہدری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ شریف برادران کی کسانوں سے دیرینہ دشمنی ہے ، حکومت گزشتہ سال کی گندم نہیں نکال سکی اور گودام بھرے ہوئے ہیں آنے والے دنوں میں حالات یہ ہوں گے کسان اپنی فصل سڑک پر پھینکنے پر مجبور ہو جائیں گے ،بھارت ہمیں لائن آف کنٹرول کے ذریعے لاشیں بھیجتا ہے اور ہم اسے ساڑھیاں بھیج رہے ہیں ، حکومت کی کوئی کارکردگی نظر نہیں آرہی ، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بر سر پیکار فوج ملک میں امن و امان کو بھی دیکھ رہی ہے ، سانحہ یوحنا آباد کے بعد پولیس نے کوئی کردار ادا نہیں کیا اور مشتعل مظاہرین کا دو افراد کو پولیس سے چھین کر جلا دینا لمحہ فکریہ ہے ، سپریم کورٹ بلدیاتی انتخابات کیلئے شیڈول جاری کر چکی ہے لیکن حکومت کی طرف سے ابھی کچھ ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ،عمران خان اور طاہر القادری احتجاج کے لئے آئیں گے تو پھر دیکھیں گے او رفیصلے بھی کرینگے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز مسلم لیگ ہاؤس میں چوہدری ظہیر الدین‘ راجہ بشارت‘ میاں عمران مسعود اور دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ چوہدری پرویز الٰہی نے کہا کہ ہمارے ملک کی 70فیصد آبادی دیہی علاقوں میں بستی ہے جو زراعت سے وابستہ ہیں اگر حکومت ان لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں لائے گی تو اس سے ملک خوشحال ہو گا ۔

شریف برادران اور (ن) لیگ کی حکومت کوکسانوں سے خواہ مخواہ کا بیر ہے اور انکی کسانوں سے دیرینہ دشمنی ہے ۔ حکومت نے کسانوں کا معاشی قتل شروع کیا ہوا ہے اور کسانوں کے بچوں کے منہ سے روٹی کا آخری نوالہ بھی چھیننا چاہتی ہے ۔ اپنے حقوق کے لئے باہر نکلنے والے کسانوں پر لاٹھیاں برسائی گئیں اور انہیں جیلوں میں ڈال دیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ چاول کی فصل پر کسان کا 80ہزار روپے فی ایکڑ خرچ آرہا ہے جبکہ اسکی آمدن 40ہزار روپے ہے اسی طرح کپاس فی من3 ہزار روپے خرچ آتا ہے جبکہ اسکی آمدن 2200روپے ہے ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ سال 30لاکھ ٹن گندم خریدنے کا اعلان کیا لیکن صرف 20لاکھ ٹن گندم خرید کی گئی ،حکومت کی نا اہلی ہے کہ اضافی گندم کو باہر نہیں بھجوایا گیا اور حکومت کے پاس اب بھی گودام بھرے ہوئے ہیں جب نئی فصل آ گئی تو اسکے پاس گندم رکھنے کے لئے بھی جگہ نہیں اور گندم 900روپے فی من بکے گی بلکہ یہ صورتحال ہو گی کہ کسان اپنی فصل سڑک پر پھینکنے پر مجبور ہو ں گے ۔

اگر بھارت پاکستان کے راستے افغانستان کو گندم بھجوا سکتا ہے تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے ۔ ہم ہر وقت بھارت کی چمچہ گیری کرتے ہیں ،لائن آف کنٹرول پر ہمیں لاشیں بھجوائی جاتی ہیں جبکہ ہم انہیں ساڑھیاں بھجوا رہے ہیں ۔ بھارت اپنے کسان کو بڑے پیمانے پر سبسڈی دیتا ہے جسکی وجہ سے وہاں پر پیداواری لاگت کم ہے اورآج ہم آلو اور ٹما ٹر بھارت سے منگوا رہے ہیں جبکہ ہمارا کسان پریشانی سے دوچار ہے ۔

انہوں نے کہا کہ چاول کا بیج تبدیل ہونے والا ہے اور ہالینڈ سے اس کا بیچ آنا تھا لیکن وہ نہیں منگوایا گیا اسی طرح آلو کا نیا بیج آنے والا ہے لیکن حکومت کوئی پیشرفت نہیں کر رہی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں کسان کے ٹیوب ویل کیلئے بجلی فری ہے ،ہمارے دور میں پچاس فیصد رعایت دی گئی جبکہ موجودہ حکومت نے سب کچھ ختم کر دیا‘ بھارت میں کسان کیلئے بیچ فری ہے ‘ کھاد پر سبسڈی دی جاتی ہے جسکی وجہ سے وہاں کا کسان خوشحال ہے۔

انہوں نے کہا کہ جاپان سب سے زیادہ اپنے کسانوں کو 46.5بلین ڈالر ‘ امریکہ 30.6بلین ڈالر ‘ ترکی 22بلین ڈالر جبکہ بھارت نے 2012ء میں 37بلین ڈالر کی سبسڈی دی جبکہ پاکستان نے نہ ہونے کے برابر سبسڈی دی جو ایک بلین بھی نہیں بنتی بلکہ الٹا کسانوں پر جنرل سیلز ٹیکس لگا دیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کسانوں پر ساڑھے بارہ ایکڑ پر ٹیکس معاف کیا لیکن حکومت نے اسے پھر عائد کر دیا ، مالیاتی اداروں نے کسانوں کو پانچ فیصد قرضے دینا بھی بند کر دئیے ہیں ،کسانوں کو ٹریکٹرز کے لئے بھی قرضہ نہیں مل رہا ۔

انہوں نے کہا کہ گنے کے کاشتکار کا استحصال کیا جارہا ہے ، گنے کے کاشتکاروں کو گزشتہ سال کی ادائیگیاں بھی نہیں کی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ میں شہباز شریف کو ایک مرتبہ پھر مناظرے کا چیلنج دیتا ہوں کہ وہ آئیں اور اپنے سات سات دور اور ہمارے پانچ سالہ دور حکومت میں کسانوں کو دی جانے والی سہولیات کا موازنہ کر لیں ۔انہوں نے کہا کہ آج حکومت پرفارم نہیں کر رہی ، فوج دہشتگردوں کے خلاف بھی بر سر پیکا ر ہے جبکہ امن و امان کو بھی فوج دیکھ رہی ہے او رسانحہ یوحنا آباد کے بعد رینجرز کا آنا اس کا ثبوت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ جہاں سانحہ یوحنا آباد ہوا وزیر اعلیٰ پنجاب کا گھر اس سے تین کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ،اس سے قبل سانحہ ماڈل ٹاؤن بھی وزیر اعلیٰ کے پڑوس میں ہوا۔ سانحہ یوحنا آباد کے موقع پر پولیس خاموش تماشائی بنی رہی ،بتایا جائے حکومت کی گورننس کہاں گئی ۔ اگر دو افراد پولیس کی تحویل میں تھے تو پولیس انکی حفاظت کرنی چاہیے تھا دو افراد کو اس طرح جلایا جانا لمحہ فکریہ ہے ۔

انہوں نے سپریم کورٹ کی طرف سے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ عدالت عظمیٰ نے حکم دیا ہے تو اس پر پیشرفت کرنا صوبائی حکومتوں کا کام ہے لیکن پنجاب حکومت کی طرف سے ابھی کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ۔انہوں نے کہا کہ حکمران پل اور سڑکیں بنا رہے ہیں لیکن جب عوام بھوک اور غربت کی وجہ سے چلنے کے قابل ہی نہ رہے تو یہ پل اور سڑکیں بنانے کا کیا فائدہ ہے ۔

مشتعل مظاہرین کی طرف سے میٹرو بس سروس پر توڑ پھوڑ نفرت کا اظہار تھا ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مسلم لیگ اپنے فیصلے خودکرتی ہے ۔ جب عمران خان اور طاہر القادری احتجاج کے لئے آئیں گے تو پھر دیکھیں گے اور فیصلے ہوتے نظر بھی آئیں گے ۔ سینیٹ میں ہمارا اپنا فیصلہ تھا اور آئندہ بھی سوچ سمجھ کر فیصلے کریں گے۔

متعلقہ عنوان :