قومی اسمبلی میں9ماہ میں مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس منعقد نہ کرنے پر اپوزیشن کا واک آؤٹ

منگل 17 مارچ 2015 15:08

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔17مارچ۔2015ء) قومی اسمبلی میں9ماہ میں مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس منعقد نہ کرنے پر اپوزیشن کا واک آؤٹ، وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ ریاض حسین پیرزادہ نے90روز کے اندر مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس منعقد نہ کرنے پر معافی مانگ لی، مشترکہ مفادات کونسل کا آخری اجلاس 29مئی 2014کو ہوا تھا، جس کے بعد 8مرتبہ اجلاس کی تاریخ کا اعلان کیا گیا جبکہ ایجنڈا مکمل نہ ہونے اور وزرائے اعلیٰ کے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے مشترکہ مفاد کونسل کا اجلاس منعقد نہیں ہو سکا جوکہ اب کل بدھ کو ہوگا۔

پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی ڈاکٹر عذرا افضل پیچوہو نے کہا کہ ای سی سی نے مشترکہ مفادات کونسل کے مینڈیٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تاپی گیس پائپ لائن منصوبے سے آنے والی 75فیصد گیس پنجاب کو دینے کا فیصلہ کیا، سپیکر قومی اسمبلی نے ہدایت کی کہ حکومت مشترکہ مفادات کونسل کا سیکرٹریٹ قائم کرے۔

(جاری ہے)

پیپلز پارٹی کے ایم این اے سید نوید قمر نے توجہ دلاؤ نوٹس پر کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس گزشتہ 9ماہ سے منعقد نہیں ہوا، جس پر وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ ریاض پیرزادہ نے کہا کہ آئین کے مطابق مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس 90روز میں ایک بار ضرور منعقد ہونا چاہیے جبکہ مشترکہ مفادات کونسل کا آخری اجلاس29مئی 2014کو منعقد ہوا تھا، اس کے بعد یکم اگست2014کو اجلاس بلایا گیا جبکہ اجلاس کا موٹر ایجنڈا نہ ہونے کی وجہ سے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس ملتوی کر کے 2ستمبر،17ستمبر،22ستمبر، یکم اکتوبر2014اور23فروری،10مارچ اور 17مارچ کو بلایا گیا لیکن ان تاریخوں میں بھی اجلاس منعقد نہیں ہو سکا، جو اب کل 2بجکر30 منٹ پر منعقد ہو گا، جس کا ایجنڈا مکمل ہے، اس پر سید نوید قمر نے کہا کہ وزیر اعظم آئین کے تحت 90روز میں مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کے پابند ہیں جبکہ مشترکہ مفادات کونسل میں فیڈرل لیجسٹیو لسٹ پارٹIIمیں شامل تمام شعبوں کے امور زیر بحث آتے ہیں۔

وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ نے کہا کہ یہ معاملہ قبل اس کے سینیٹ آف پاکستان میں بھی اٹھایا گیا تھا جبکہ یہ حقیقت ہے کہ حکومتیں بدلنے کی وجہ سے تسلسل قائم نہیں رہتا۔ آئین کے تحت مشرتکہ مفادات کونسل کا سیکرٹریٹ بننا تھا جو کہ تاحال نہیں بن سکا۔ رکن اسمبلی شازیہ مری نے کہا کہ آئین کے تحت 90روز بعد مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانا ضروری ہے جبکہ سابق حکومت کے دور میں مشترکہ مفادات کونسل کے 13 اجلاسوں میں 66ایجنڈا پوائنٹ پربحث ہوئی تھی۔

جس پر ریاض پیرزادہ نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے بعد انتظامات کرنا اور وزیر اعظم کو اس بارے میں یاد دلانا میرا کام ہے۔ آج کے اجلاس میں گیس انفراسٹرکچر سیس بل سمیت دیگر اہم معاملات کا جائزہ لیا جائے گا۔ ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ وفاقی وزیر یہ ذمہ داری قبول کر رہے ہیں کہ مشترکہ مفادات کونسل کا سیکرٹریٹ بننا چاہیے تھا جو تاحالم نہیں بنا۔

علاوہ ازیں کئی ایسے اہم معاملات ہیں جو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں زیر بحث آنا ضروری ہیں مگر اجلاس ہی نہیں ہو رہا۔ وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ نے کہا کہ میں اپنی غلطی کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کا قائل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھی کینال منصوبے کو میں نے مشترکہ مفادات کونسل کے ایجنڈے میں شامل کیا ۔کچھی کینال منصوبے میں گزشتہ دور حکومت بہت زیادہ پیسہ کھایا گیا۔

ایم این اے ڈاکٹر عذرا افضل پیچوہو نے کہا کہ گزشتہ دنوں حکومت نے تاجکستان سے تاپی گیس پائپ لائن کے ذریعے آنے والی 75فیصد گیس پنجاب کو دینے کا فیصلہ کیا گیا جو دراصل مشترکہ مفادات کونسل کا مینڈیٹ ہے۔ اس پر سپیکر سردار ایاز صادق نے وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ کو ہدایت کی کہ مشترکہ مفادات کونسل کے سیکرٹریٹ کے قیام کا مسئلہ حل کریں۔

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ حکومت کو اس پر معذرت کرنی چاہیے اور یقین دہانی کرائے کہ آئندہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس آئین میں دی گئی مدت کے اندر منعقد ہو گا۔ اس موقع پر سید نوید قمر نے کہا کہ 90 روز کے اندر مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہ بلائے جانے پر اپوزیشن اجلاس سے واک آؤٹ کرتی ہے، جس کے بعد پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم کے ارکان اور محمود خاناچکزئی واک آؤٹ کر کے ایوان سے باہر چلے گئے جبکہ سپیکر سردار ایاز صادق نے وزیر مملکت شیخ آفتاب احمد اور وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ کو اپوزیشن کو منا کر واپس لانے کی ہدایت کی۔

اپوزیشن کی واپسی کے بعد وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ نے حکومت کی جانب سے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بروقت نہ بلانے پر باقاعدہ معافی مانگتا ہوں، آئندہ پوری کوشش کریں گے کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس آئین میں دی گئی مدت میں بلایا جائے۔