مظفرآباد،کتابوں کے عالمی دن کے موقع پرغیرسرکاری تنظیموں کے زیر اہتمام '' کتابوں کی اہمیت اور معاہدہ امرتسر'' کے مو ضوع پر تقریب،

علم کے فروغ کیلئے تحصیل لیول پر لائبریریاں قائم کرنے کے ساتھ بڑے شہروں میں بک میلوں کا بھی انعقادکیا جائے، حکومت آزادکشمیر سے مطالبہ

ہفتہ 14 مارچ 2015 22:17

مظفرآباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔14مارچ۔2015ء )کتابوں کے عالمی دن کے موقع پرغیرسرکاری تنظیموں ایل ایس ڈی ایف اور آگاہی فورم کے زیر اہتمام '' کتابوں کی اہمیت اور معاہدہ امرتسر'' کے مو ضوع پر خورشید نیشنل لائبریری مظفرآباد میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے حکومت آزادکشمیر سے مطالبہ کیا کہ علم کے فروغ کیلئے تحصیل لیول پر لائبریریاں قائم کرنے کے ساتھ بڑے شہروں میں بک میلوں کا بھی انعقادکیا جائے، تعلیمی اداروں میں بزم ادب سرگرمی کو دوبارہ شروع کرانے سمیت نصاب میں کشمیری تاریخ کو شامل کر کے بہتری لائی جائے،کتاب بینی کی طرف توجہ مبذول کرانے کیلئے علاقائی زبانوں کو اہمیت دی جائے۔

گھریلو زندگی میں کتابوں سے رشتے مضبوط کرنے کیلئے احباب کو کتابوں تحائف اور تبادلے میں دی جائیں۔

(جاری ہے)

سول سوسائیٹی بک کلب بنا کر عام شہریوں کو ان میں رسائی دے ۔معاہدہ امرتسر نے کشمیری عوام سے زیادہ زمین کو اہمیت دی ، سٹیٹ سبجیکٹ دینے کے باوجود ڈوگرہ حکمرانوں نے کشمیر یوں کی غلامی میں اضافہ کیا ۔ تقریب سے کشمیر کلچرل اکیڈمی کے سابق چیئر مین علامہ جواد جعفری، ڈائریکٹر نیشنل لائبریری محمد سعد خان ، سیکرٹری جنرل گزیٹڈ آفسران ایسوسی ایشن آزادکشمیر سید سلیم گردیزی ، معروف دانشور ، عارف بہار،غلام اللہ کیانی، ساجدہ بہار ، کاشف میر، واجد خان ،تیمور میر، محمدبنارس، محمد عارف،خواجہ ریاض اور دیگر نے خطاب کیا۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علامہ جواد جعفری نے کہا کہ لائبریری علمی مرکز ہوتا ہے، کتابوں کی اہمیت کو اہل یورپ نے سمجھا اور ترقی کر گئے لیکن ہمیں کسی کی اندھی تقلید نہیں کرنی چاہیے ۔آمروں کی قسم اب بھی ہمارے اوپر مسلط ہے۔زبانیں ختم ہو رہی ہیں ان پر توجہ دی جائے تو تمام ادبی حوالے سے مسائل کم ہو جائیں گے ۔ جواد جعفری نے کہا کہ نامور شہراء ، مصنفین کی کتابیں پڑھنے سے ذہن کھلتے ہیں ۔

ڈائیریکٹر نیشنل لائبریری محمد سعد خان نے کہا کہ انسان ارتقائی عمل سے گزرتا ہی آ رہا ہے اس لیے انسانی تہذیب میں تحریر کیا ہمیت ہے ، پتھروں ، درختوں اور پتوں پر لکھتے ہوئے آج کاغذ اور انٹرنیٹ کو دور آ گیا ہے لیکن کتابوں کی اہمیت اپنی جگہ قائم ہے۔جنرل سیکرٹری گزیٹد آفیسر ایسوسی ایشن آزادکشمیر سلیم گردیزی نے کہا کہ کتابوں نے عالمی انقلاب برپا کیا ، مختلف تہذیبوں کی تاریخ کو کتابوں سے ہی تلاش کیا جا سکتا ہے۔

معاہدہ امرتسر ایک تاریک معاہدہ تھا جس نے کشمیریوں کو غلامی کی طرف پھینکا، انسانوں کی قیمت چند روپے لگائی گئی ۔معروف دانشور عارف بہار نے کہا کہ کہ کتابوں کے ساتھ جس قوم کا رشتہ جڑ جائے وہ قوم کبھی دنیا سے پیچھے نہیں رہ سکتی ۔یورپ میں کتب بینی اس حد تک ہے کہ لوگوں کو جنون کی حد تک کتابیں پڑھتے ہیں۔سینئر کالم نگار غلام اللہ کیانی نے کہا کہ ہم نسل نو کو پیسہ کمانے اور نوکریوں کی تلاش میں لگا رہے ہیں لیکن تاریخ اور اپنی ثقافت سے دور رکھ رہے ہیں۔

ای بک کی طرف رجحان بڑھایا جانا چاہیے ۔ساجدہ بہار نے کہا کہ کتابوں کی تاریخ اس خطہ میں طویل عرصہ سے رہی ہے لیکن اسکی طرف اب توجہ نہیں دی جارہی اس لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔کاشف میر نے کہا کہ ریاستِ جموں و کشمیر کے عوام پر معاہدہ امرتسر کے اثرات 'انتہائی اہم ہے۔ جب تک ہم اس ریاست کی قانونی حیثیت، حکمرانوں کے طرزِ حکمرانی اور ریاست کے عوام کے ساتھ ان کے تعلقات کو سمجھ نہیں لیتے ب تک ہم اس بات کا فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں کہ 1947ء میں ہونے والے واقعات کی حقیقت کیا تھی اور تب تک نہ ہی ہم آج اس مخدوش صورتحال سے نکلنے کا کوئی راستہ ڈھونڈ سکتے ہیں۔

1946 میں پہلی جنگ میں فتح کے بعد کشمیر ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے میں چلا گیا مگر ایسے برطانوی ہند کا حصہ بنانے کے بجائے معائدہ امرتسر کے تحت جموں کے راجا گلاب سنگھ کو 75 لاکھ نانک شاہی کے عوض عملداری میں دیا گیا اور یوں ریاستِ جموں و کشمیر کی بنیاد پڑھی۔ معائدہ کے مطابق ریاست دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے راوی کے مغرب تک پھیلی ہوی تھی، بعد میں ہنزہ نگر اور گلگت کے علاقے بھی ریاست کا حصہ بنے۔

ریاستِ جموں و کشمیر کے قیام سے پہلے جموں کا راجہ گلاب سنگھ کشتواڑ، لداخ، بلتستان کو فتح کر کے اپنے علاقوں میں شامل کر چکا تھا۔ریاستِ جموں و کشمیر سے سارے معائدے ڈوگرہ دور میں ہی ہوئے ۔عہد نامہ امرتسر انگریز سرکار اور راجا آف جموں کے درمیان 16 مارچ 1846 ء کو طے پایا، اس معائدے میں راجا نے خود جبکہ انگریز سرکار کی طرف سے فیڈرک کیوری اور بریوٹ ہنری لارنس نے شرکت کی اور عہد نامہ کو 10 نکات کی صورت میں حتمی طور پر طے کر لیا۔

اس کی اہم شقیں یہ تھیں۔1- انگریز سرکار وہ تمام پہاڑی علاقے جو دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے راوی کے مغرب میں واقع ہیں ماسوائے لاہورکے جو اس علاقے کا حصہ ہے جو لاہور دربار نے معائدہ 9 مارچ 1846 ء کی دفعہ 4 کے تحت حکومتِ برطانیہ کے سپرد کیا ہے مہاراجہ گلاب سنگھ اور ان کی اولادِ نرینہ کے مستقل اور کلی اختیار میں دیتی ہے۔شق نمبر 3 کے مطابق جو علاقہ مہاراجہ گلاب سنگھ اور ان کے وارثوں کو منتقل کیا جا رہا ہے اس کے عوض مہاراجہ گلاب سنگھ برطانوی حکومت کو مبلغ 75 لاکھ نانک شاہی ادا کریں گے ، جس میں سے 50 لاکھ تو اس معائدہ کے انعقاد پر دیا جائے گا، بقیہ 25 لاکھ اسی سال یکم اکتوبر کو یا اس سے پہلے ادا کیا جائے گا۔

واجد خان نے کہا کہ اللہ پاک نے آسمانی کتابوں کے بعد قرآن پاک کوانسانوں کیلئے نظام اور آئین کی صورت میں بھیجا ، کتابوں کی اہمیت کے حوالے سے مزید اقدامات کیے جانے چاہیے،تیمور میر نے کہا کہ موجودہ دور میں جو معلومات انٹرنیٹ سے مل رہی ہیں انکو مصدقہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ محمد عارف ، بنارس اور خواجہ ریاض نے بھی نشست سے خطاب کیا۔۔۔