چیئرمین واپڈا کی زیرِ صدارت واپڈا اتھارٹی کا اجلاس، منصوبوں کی تعمیر کیلئے فنڈز کا انتظام کرنے کا جائزہ،

واپڈا کو مالی دشواریوں کی وجہ سے اپنے تفویض کردہ فرائض انجام دینے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے‘ اجلاس میں اظہار تشویش

جمعہ 13 مارچ 2015 21:04

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔13مارچ۔2015ء ) چیئرمین واپڈاظفر محمود کی زیرِصدارت واپڈا ہاؤس میں اتھارٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ واپڈا کو مالی دشواریوں کی وجہ سے اپنے تفویض کردہ فرائض انجام دینے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔اجلاس میں کہا گیا کہ ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ اور پن بجلی کی پیداوار واپڈا کے فرائض میں شامل ہے۔

دنیا بھر میں پانی ذخیرہ کرنے کی اوسط صلاحیت 40 فی صد ہے تاہم بے پناہ آبی وسائل کے باوجود پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 14 فی صد ہے اور ڈیمز میں مٹی بھرنے کے قدرتی عمل کے باعث اس صلاحیت میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ پاکستان میں پن بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت تقریباً ایک لاکھ میگاواٹ ہے، جس میں سے 60 ہزار میگاواٹ صلاحیت کی باقاعدہ نشاندہی بھی کی جاچکی ہے۔

(جاری ہے)

لیکن ہم ابھی تک صرف 7 ہزار میگاواٹ پن بجلی پیدا کرنے کے قابل ہوسکے ہیں۔اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ پانی اور پن بجلی کے وسائل کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ مالی دشواریاں ہیں ۔اجلاس میں نوٹ کیا گیا کہ 1960 ء میں سندھ طاس کا معاہدہ طے پانے کے بعد سندھ طاس متبادل منصوبے بشمول منگلا اور تربیلا ڈیم، پانچ بیراج، آٹھ بین الدریائی نہریں اور ایک سائفن عالمی بنک اور دیگر ممالک کے مالی تعاون سے تعمیرکئے گئے۔

منگلا اور تربیلا کے پن بجلی گھروں کی تکمیل کے بعد وہاں سے پیدا ہونے والی بجلی کے نرخ کا تعین وزارتِ خزانہ کیا کرتی تھی ۔ نرخ متعین کرتے ہوئے واپڈا کے مستقبل کے منصوبوں کیلئے درکار فنڈ ز کا بھی خیال رکھا جاتا تھا ۔ اس انتظام کے تحت دستیاب ہونے والے فنڈز سے واپڈا نے اپنے متعدد منصوبے مکمل کئے۔ ان منصوبوں میں تھرمل بجلی گھر بھی شامل ہیں جن میں جامشورو اور مظفرگڑھ تھرمل بجلی گھر قابلِ ذکر ہیں۔

اپنے قیام کے بعد پن بجلی کے نرخ کے تعین کا اختیار اب نیپرا کو حاصل ہے اور بجلی کے نرخ کے تعین میں واپڈا کی حیثیت بھی آئی پی پی ز جیسی ہے۔ ماضی کے برعکس اب نیپرا کی جانب سے پن بجلی کا نرخ متعین کرتے ہوئے واپڈا کے مستقبل کے منصوبوں کیلئے درکار فنڈز کو زیرِغور نہیں لایا جاتا۔اجلاس میں یہ بات نوٹ کی گئی کہ مالی دشواریوں کی وجہ سے واپڈا 969 میگاواٹ نیلم جہلم اور 106 میگاواٹ گولن گول سمیت اپنے دیگر زیرِ تعمیر منصوبوں کا فنانشل کلوزنہیں کرسکا، جبکہ مقامی اور بین الاقوامی مالی مشکلات کی وجہ سے دیامربھاشا ڈیم ، داسو اور بونجی جیسے منصوبوں کی تعمیر میں بھی واپڈا کو دِقت کا سامنا ہے۔

واپڈا اپنے منصوبوں کی تعمیر کیلئے واپڈا سکوک بانڈز کا اجراء کرتا رہا ہے۔ اجلاس میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ واپڈا نے ان بانڈز کے حوالے سے کبھی ڈیفالٹ نہیں کیا۔ تاہم بانڈز کے اجراء کیلئے ریاستی ضمانت کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ایک خاص حد سے زیادہ بانڈز جاری بھی نہیں کئے جاسکتے۔اجلاس میں نوٹ کیا گیا کہ واپڈا کے اثاثوں کی مالیت اربوں روپے ہے۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ واپڈا کے اثاثوں کی مالیت کا تعین مارکیٹ ریٹس کی بنیاد پر ازسرنو کرایا جائے۔ جس کے بعد ضرورت کے مطابق اِن اثاثوں کا کچھ حصہ عوام کو شیئرز کی صورت میں آفر کیا جائے ۔ اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ واپڈا اپنے منصوبوں کیلئے درکار فنڈز کا انتظام کرنے کیلئے ایک کمرشل ادارے کی طرح مذکورہ امکان پر بھرپور طریقے سے کام کرے گا، تاکہ واپڈا آبی وسائل کی ترقی کیلئے اپنا متعین کردار موثر طور پر ادا کرسکے۔

متعلقہ عنوان :