کراچی کی 7صنعتی ایسوایشنز نے مختلف مسائل کے حل کے لیے چارٹرآف ڈیمانڈ پیش کردیا

منگل 10 مارچ 2015 17:49

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔10مارچ۔2015ء) کراچی کے7 صنعتی علاقوں کی ایسو سی ایشنز نے ناقص ، غیرمعیاری اور ناکافی انفرااسٹرکچر، امن و امان کی ناگفتہ بہ صورتحال، پانی کی شدید قلت، ٹوٹی ہوئی سڑکوں، گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ سمیت مختلف مسائل کے خلاف کڑی تنقید کرتے ہوئے چارٹرآف ڈیمانڈپیش کردیا ہے۔ منگل کو کراچی انڈسٹریل فورم کی ساتوں صنعتی علاقوں سائٹ، ایف بی ایریا، نارتھ کراچی ،کورنگی، لانڈھی، بن قاسم،اور سائٹ سپر ہائی وے کی ایسو سی ایشنز کے پریزیڈینٹزایم جاوید بلوانی، عبدالرشید فوڈروالا، انجینئرنثار احمد خان، جاوید غوری، راشد احمد صدیقی، میا ں محمد احمد اور اسلام الدین ظفرنے ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا میٹرپولیٹن شہر ہے جو قومی خزانے کو مجموعی ٹیکس ریوینیو کا 54 فیصد اور لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرنے کے ساتھ 50فیصد برآمدات بھی کرتا ہے مگر گزشتہ دو عشروں سے کراچی کے سات صنعتی علاقوں میں انفرااسٹرکچر کی کوئی بہتری دیکھنے میں نہیں آئی، ان صنعتی علاقوں کو مطلوبہ مقدار میں پانی فراہم نہیں کیا جارہا ، گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ جاری ہے، اسٹریٹ لائٹس نا ہونے کے برابر ہے، امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہے جب کے سڑکیں بری طرح ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ کراچی محض نام کا میٹرپولیٹن شہر ہے جس میں دنیا کے دیگر میٹرپولیٹن شہروں کی طرح مطلوبہ سہولتیں موجود نہیں ہیں۔ ان صنعتی علاقوں کے خارجی اور داخلی راستے اس طرح بلاک کردیئے گئے ہیں کہ ان سے صنعتی علاقوں میں بمشکل داخل ہوا جاسکتا ہے وہ غیر ملکی بہادر خریدار جو مال لینے کراچی آتے ہیں، وہ ان صنعتی علاقوں کی حالت زار دیکھ کر حیران اور پریشان رہ جاتے ہیں جس سے کراچی کا امیج دنیا بھر میں خراب ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کراچی کے ساتوں صنعتی علاقوں کا ماحول کاروبار کے لئے قطعی غیر دوستانہ ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی وجہ سے آئے دن حادثات ہوتے ہیں۔ امن و امان کی صورتحال اتنی سنگین ہے کہ صنعتکار اور ورکرز خودکو انتہائی غیر محفوظ سمجھتے ہیں، گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ اکثرو بیشتر جاری رہتی ہے، گیس پورے ہفتے میں بمشکل دو دن فراہم کی جاتی ہے اور وہ بھی پورے پریشر کے ساتھ نہیں آتی۔

واٹر بورڈ کی پائپ لائینوں سے پانی دستیاب نہیں ہوتا جس سے پیداواری لاگت غیر معمولی طور پر بڑھ جاتی ہے، اس تناظر میں صرف 90فیصد پیداواری استعداد پر چلنے والی صنعتیں کامیاب ہیں جبکہ 75فیصد استعداد پر چلنے والی صنعتیں برابر چھوٹ رہی ہیں، انہوں نے کہا کہ کسی زمانے میں سرکلر ریلوے کا نظام تھا جسے اچانک بند کر دیا گیا اور اب کراچی میں ماس ٹرانزٹ سسٹم کو بالائے طاق رکھ دیا گیاہے جس کی وجہ سے ہزاروں ورکرز بسوں اور کوچز کی چھتوں پر سفر کر کے فیکٹریوں میں پہنچتے ہیں، ساتوں ایسو ایشنز نے پریس کانفرس میں چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا ۔

جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ساتوں صنعتی علاقوں میں دیگر صارفین سے علیحدہ پانی کی پائپ لائنز بچھائی جائے۔صنعتی علاقوں میں پانی کی مطلوبہ مقدار کی فراہمی کی یقینی بنایا جائے۔ساتوں صنعتی علاقوں میں کارخانوں کے لئے مخصوص علیحدہ گیس کی پائپ لائن بچھائی جائے۔ہر صنعتی علاقے کا اپنا فائر اسٹیشن ہونا چاہیئے جس میں فائرٹینڈر، اسنارکل اور آگ بجھانے کے آلات موجود ہوں۔

تمام صنعتی علاقوں کے پولیس اسٹیشنز رینجرز کی کمانڈ میں دیئے جائیں اور افسران کی تقرری اور تبادلے متعلقہ ایسو سی ایشنز کی مشاورت سے کئے جائے۔ڈپٹی کمیشنرز کی تقرری اور تبادلے متعلقہ ایسو سی ایشنز مشاورت سے کئے جائے۔ساتوں صنعتی علاقوں کے لئے سال میں گزیٹیڈ تعطیلات کا تعین کیا جائے اور ہڑتال یا ہنگامہ آرائی کے باعث فیکٹری نہ پہنچنے والے ورکرز کی حاضریوں کو گزیٹیڈ تعطیلات سے پورا کیا جائے۔

ایسو سی ایشنز کے پریزیڈینٹز نے کہا کہ ساتوں صنعتی علاقوں کے مطالبات جائز اور بنیادی حقوق کے مطابق ہے اور انہیں پورا کئے بغیر صنعتوں کو چلانا کسی بھی طور پرممکن نہیں۔ ان علاقوں کی ہزاروں صنعتیں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو خطیر ٹیکس ریوینیو فراہم کرتی ہیں اور اگر انہیں مطلوبہ سہولتیں فراہم نہیں کی جاسکتی تو حکومتوں کو ٹیکسز وصول کرنے کا کوئی حق نہیں ہے یا پھر تمام صنعتی علاقوں کو اختیار دیا جائے کہ وہ ٹیکسز جمع کر کے صنعتوں کو چلانے کی غرض سے اپنا انفرااسٹرکچر تعمیر کریں جو نا صرف ان صنعتوں بلکہ لاکھوں ورکرز کی بقا کے لئے ناگزیر ہے۔

متعلقہ عنوان :