پی اے سی کا خیبر پختونخوا ہاؤس اور شاہی مہمان خانہ میں رہائش پذیر افراد سے کرایہ کی مد میں وصول 14.530 ملین روپے خزانہ میں جمع نہ کروانے کا سخت نوٹس، معاملے کی تحقیقات کیلئے ذیلی کمیٹی کی تشکیل ،دوماہ میں رپورٹ طلب

منگل 3 مارچ 2015 23:18

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔03مارچ۔2015ء )خیبر پختونخوا اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے صوبائی محکمہ ایڈ منسٹریشن کے حسابات کی جانچ پڑتال کے دوران خیبر پختونخوا ہاؤس اسلام آباد اور شاہی مہمان خانہ پشاور میں رہائش پذیر افراد سے کرایہ کی مد میں وصول کردہ 14.530 ملین روپے صوبائی خزانہ میں جمع کروانے کی بجائے ڈپٹی سیکرٹری کے اکاؤنٹ میں جمع کروانے اور بعدازاں غیر ضروری مدات میں اخراجات کرنے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے ممبران اسمبلی ارباب اکبر حیات خان اور ادریس خان پر مشتمل سب کمیٹی تشکیل دی گئی جسے معاملہ کی تفصیلی چھان بین کر کے اپنی انکوائری رپورٹ دو ماہ تک پیش کرنے کی ہدایت کی گئی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس سابق صوبائی وزیر صحت و ایم پی اے شوکت یوسفزئی کی زیر صدارت صوبائی اسمبلی سیکرٹریٹ میں منعقد ہوا اجلاس میں ممبران اسمبلی ارباب اکبر حیات خان‘ سید جعفر شاہ‘ ادریس خان‘ مفتی جانان‘ محمود خان بھیٹنی کے علاوہ ایڈیشنل سیکرٹری اسمبلی امجد علی‘ سیکرٹری ایڈمنسٹریشن حسن یوسفزئی‘ ڈائریکٹر جنرل آڈٹ سمیت محکمہ قانون و دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اجلاس میں صوبائی محکمہ ایڈمنسٹریشن سے متعلق مالی سال 2011-12 ء کے آڈٹ پیروں کی تفصیلی بحث کی گئی کمیٹی نے دوہری رہائش گاہیں رکھنے والے صوبائی حکومت کی اعلیٰ افسران سے 12.520 ملین روپے کے بقایا جات کی ریکوری پر ناکامی کا سخت نوٹس لیتے ہوئے محکمہ ایڈ منسٹریشن کو متعلقہ افسران سے مذکورہ بالا بقایا جات کی وصولی کر کے صوبائی خزانہ میں جمع کروانے کے احکامات جاری کئے کمیٹی نے شاہی مہمان خانہ پشاور میں رہائش پذیر رہنے والے افسران و متعلقہ افراد سے 0.803 ملین روپے کے بقایا جات بھی تین ماہ تک وصول کرنے کا حکم جاری کیا ۔

پی اے سی نے مالی سال 2010-11 کے دوران خیبر پختونخوا ہاؤس اسلام آباد کے کرایہ کی مد میں وصول کردہ 10.127 ملین روپے صوبائی خزانہ میں جمع نہ کروانے کے معاملہ کی تفصیلی چھان بین کروانے کیلئے مذکورہ بالا ممبران اسمبلی پر مشتمل سب کمیٹی کے حوالے کیا جو مکمل تحقیقات کر کے مرتکب افراد کی نشاندہی کرے گی تاکہ ریکوری کے ساتھ ساتھ متعلقہ حکام کے خلاف تادیبی کارروائی بھی عمل میں لائی جاسکے۔