پاکستانی ہی پاکستان کے مقابلے میں؟

منگل 3 مارچ 2015 21:29

پاکستانی ہی پاکستان کے مقابلے میں؟

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔3مارچ۔2015ء) سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر پاکستان کئی برسوں سے اپنے ہوم میچز متحدہ عرب امارات میں کھیل رہا ہے اور اس خلیجی ملک کی کرکٹ ٹیم کی اکثریت بھی پاکستانی نژاد کھلاڑیوں پر مشتمل ہے۔ بدھ کو نیوزی لینڈ کے شہر نیپیئر میں ورلڈکپ پول بی کے ایک میچ میں جب یو اے ای اور پاکستان مدمقابل آئیں گے تو درحقیقت یہ دو ' ہوم' ٹیموں کا ٹکراﺅ ہوگا مگر فیلڈ پر اترنے کے بعد یہ کوئی دوستانہ مقابلہ نہیں رہے گا۔

یو اے ای کی پندرہ رکنی ٹیم میں سے نو یا تو پاکستان میں پیدا ہوئے یا پاکستانی نژاد ہیں۔ یو اے ای میں 2013 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق وہاں کی مجموعی 92 لاکھ کی آبادی میں سے چودہ لاکھ اماراتی شہری ہیں جبکہ باقی 78 لاکھ تارکین وطن ہیں جن میں بڑی تعداد پاکستان اور ہندوستان کے باشندوں کی ہے۔

(جاری ہے)

متعدد پاکستانی کرکٹرز جو فرسٹ کلاس لیول پر نام بنانے میں کامیاب رہے مگر قومی اسکواڈ میں جگہ نہ بناپائے ان کے لیے یو اے ای وہ مقام ہے جہاں سے وہ بین الاقوامی کرکٹ میں کھیلنے کا خواب پورا کرسکتے ہیں۔

یو اے ای کے خرم خان بھی ایسے ہی کھلاڑی ہیں۔ لیفٹ ہینڈڈ 43 سالہ باصلاحیت خرم خان ملتان کی ٹیم سے نکل کر قومی اسکواڈ کا حصہ بننے میں ناکام رہے اور پھر یو اے ای چلے گئے۔ اسی طرح شایمان انور سیالکوٹ سے تعلق رکھتے ہیں تو وکٹ کیپر ثقلین حیدر راولپنڈی، ناصر عزیز کراچی، روحان مصطفیٰ کوہاٹ، امجد علی لاہور سے تعلق رکھتے ہیں مگر دلچسپبات یہ ہے کہ یہ سب جزوقتی یا پارٹ ٹائم کرکٹر ہیں اور ان میں سے بیشتر کا اصل روزار اماراتی ائیرلائنز سے وابستہ ہے۔

شایمان انور نے پول پی میں زمبابوے کے خلاف میچ میں 67 رنز جبکہ آئرلینڈ کے مدمقابل یو اے ای کی جانب سے پہلی سنچری اسکور کی۔ یو اے ای سے تعلق رکھنے والے صحافی پال ریڈلے کہتے ہیں " پاکستان نے یو اے ای پر بہت زیادہ اثرات مرتب کیے ہیں، یہاں تک کہ اس ملک کے کوچ میں سابق پاکستانی باﺅلر عاقب جاوید ہیں اور ان کی کوچنگ میں ٹیم بہتری کی جانب گامزن ہے"۔

اب یو اے ای کے مقامی شہریوں کو اس کھیل کی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور دبئی میں پیدا ہونے والے محمد توقیر ورلڈکپ میں ٹیم کی قیادت کررہے ہیں۔ عاقب جاوید نے وزڈن انڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا "ہم ایک اکیڈمی کا آغاز کیا ہے، ہمارے ٹاپ تیس کھلاڑیوں میں سے چھ مقامی ہیں، مگر کوئی مقامی لڑکا اس وقت اپنی ٹیم کی حمایت کیوں کرے گا جب وہ اچھا نہیں کھیل رہی ہوگی؟ یہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ٹیم اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے تاکہ مقامی شہری اس کھیل کی جانب متوہ ہوسکیں"۔

پاکستان اور یو اے ای کے درمیان کرکٹ کا تعلق اس وقت مضبوط ہوا جب پاکستانی سرزمین 2009 میں سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد بین الاقوامی کرکٹ ٹیموں کے لیے " نو گوایریا" بن گئی اور اس کے بعد سے خلیجی ریاست کے گراﺅنڈز ہی پاکستان کے ' ہوم' میچز کی میزبانی کررہے ہیں۔ پاکستان کے کپتان مصباح الحق یو اے ای کی حمایت کا اعتراف کرتے ہیں " یو اے ای ہمارے لیے بہت اہم ہے ، ہم نے گزشتہ چار برسوں میں جو کچھ بھی کیا ہے اس میں یو اے ای نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے، اس ملک کے گراﺅنڈز میں ہم نے انگلینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف کلین سوئپ جبکہ سری لنکا کو شکست دی"۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مصباح ان کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جو کبھی وہاں لیگ کرکٹ کھیل چکے ہیں۔

متعلقہ عنوان :