بلدیاتی اداروں کے ملازمین گزشتہ تین سالوں سے تنخواہوں اور مراعات سے محروم ہیں ،سید ذوالفقارشاہ

منگل 3 مارچ 2015 19:33

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔03مارچ۔2015ء) میونسپل ورکرز ٹریڈیونیز الائنس کے صدر سید ذوالفقار شاہ،چیئر پرسن کنیز فاطمہ،جنرل سیکریٹری عبد الرؤف بلوچ نے کہا ہے کہ بلدیاتی اداروں کے ملازمین گزشتہ تین ، ساڑھے تین برسوں سے تنخواہوں و دیگر مراعات ، اوور ٹائم ، یونیفارم الاؤنس ، صابن ڈسٹر سمیت کئی مراعات سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ ریٹائرمنٹ کے وقت دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

انہیں اپنے قانونی واجبات لیو انکیشمنٹ ، پراویڈنٹ فنڈ، پینشن ، کموٹیشن کی ادائیگی کے لئے دو سے تین برس تک انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح وفات پاجانے والے ملازمین کے لواحقین کاغذات کی تکمیل کے بعد تین سے چار برس تک قانونی واجبات لیو انکیشمنٹ ، گروپ انشورنس، فنانشیل اسٹنسٹس ، پروانڈنٹ فنڈ ، گریجویٹی ، پینشن کی ادائیگی کے لئے طویل انتظار کرنا پڑرہا ہے۔

(جاری ہے)

بلدیاتی ادارے مالی بحران کا شکار ہوگئے ہیں۔ وہ آج کے ایم سی ورکشاپ میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے اس موقع پر الائنس کی اسٹیرنگ کمیٹٰی کے اراکین ملک محمد نواز ،اشراف اعوان ،نذیر جسکانی ،طاہر رحمانی ،غلام حسین شاہ ،پرویز جدون، ماسٹرسیموئیل بھی موجود تھے ۔انہوں نے کہا کہ بلدیاتی اداروں کے مالی بحران کی اصل وجہ پی ایف سی ایوارڈ کا 2010ءء کے بعد اعلان نہ ہونا ہے۔

جس کے تحت بلدیاتی اداروں کی OZT(آکٹرائے ضلع ٹیکس)گرانٹ میں ہر سال 20%فیصد اضافہ ہونا تھا جو کہ نہ ہونے سے بلدیاتی ادارے مالی بحران کا شکار ہوگئے ہیں اور تنخواہوں اور پینشن کی ادائیگیاں تک کرنے سے بلدیاتی ادارے قاصر ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلدیہ جنوبی کراچی کے ملازمین گزشتہ تین ماہ کی تنخواہوں کی ادائیگی سے عرصہ دراز سے محروم چلے آرہے ہیں انہیں ہر ماہ ایک تنخواہ ادا کی جاتی ہے لیکن پچھلے تین تنخواہوں کا بیک لاک تاحال کلیئر نہیں ہوسکا۔

اس کے ساتھ ساتھ ملازمین کو علاج معالجہ ، اضافی ڈیوٹیوں کی ادائیگی پر اوور ٹائم یونیفارم کی کیش پے منٹ ، ٹیکنیکل ملازمین کو صابن ڈسٹر برش کی فراہمی تک کی حاصل سہولت کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔یہی نہیں بلکہ اربوں روپوں کی قیمتی مشینری کی تین سال سے مرمت نہ ہونے سے انہیں ناکارہ کردیا گیا ہے۔ ڈرائیور حضرات کو گاڑیوں میں انجن آئل ڈالنے اور پنکچر لگانے تک کی سہولت سے محروم کردیا گیا ہے۔

جس کی وجہ سے گاڑیاں معمولی خرابی کی وجہ سے ورکشاپ میں کھڑی کردی جاتی ہیں اور شہر میں مرحلے وار کچرا کنڈیاں ختم ہونے سے بڑی کچرا کنڈیوں پر کچرے کا دباؤ بڑھ گیا ہے جبکہ گاڑیوں کے فیول کوٹہ میں کمی کردی گئی جس کی وجہ سے کچرا ٹھکانے لگانے کے نظام میں خرابی پیدا ہوگئی جبکہ شہر میں 1980ءء سے لے کر 1986ءء تک سینٹری ورکرز کی تعداد 14ہزار سے زائد تھی جو کہ کم ہوتے ہوتے اب 10ہزار سے بھی کم ہوگئی ۔

جبکہ شہر کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور آبادی میں اضافہ کی وجہ سے کچرے کی پیداوار بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔گاڑیوں کی تعداد میں خرابی کی وجہ سے مسلسل کمی فیول کوٹہ میں کمی اور سینیٹری ورکرز کی تعداد میں مسلسل کمی کی وجہ سے شہر میں کچرے کا نظام تباہ ہورہا ہے اور ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ موجودہ حکومت جان بوجھ کر تین ، ساڑھے تین سالوں سے فنڈز میں اضافہ نہ کرکے گاڑیوں کو ناکارہ کررہی ہے تاکہ سولیڈ ویسٹ منجمنٹ کے نظام کو پرائیویٹائز کرنے میں آسانی پیدا ہوسکے۔

حکومت سندھ بلدیاتی اداروں کے اختیارات اور بنیادی ذمہ داریوں کو اپنی تحویل میں مرحلہ وار لے رہی ہے۔ پہلے مرحلے میں کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بنا کر اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو براہ راست حکومت سندھ نے اپنی ماتحتی میں کرلیا۔ اسی طرح سے ماس ٹرانزٹ ماسٹر پلان کو حکومت سندھ اپنی تحویل میں لے چکی ہے۔

حکومت سندھ سولیڈ ویسٹ منجمنٹ بورڈ کے قیام کے بعد اور کچرے ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری حاصل کرنے کے بعد اب کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن و ڈی ایم سیز سے باغات و تفریحات اور سول ڈیفنس جس کے تحت فائر بریگیڈ ڈیپارٹمنٹ قائم ہے کو قبضہ میں لینے کی تیاری کررہی ہے۔اس مقصد کے تحت حکومت کا محکمہ قانون دو نئے اداروں کے قیام کے لئے تیاریاں کررہا ہے۔

جن میں ایک سول ڈیفنس اینڈ ریسکیو اتھارٹی اور دوسرا ہارٹیکلچر اینڈ ریکوریشن بورڈ شامل ہے ان اداروں کے قیام کا بنیادی مقصد بلدیہ کراچی کے کام کا دائرہ محدود کرنے اور ان کے اختیارات کم کرنا ہے تاکہ ان کے ذریعے حکومت سندھ آمدنی کے نئے ذرائع پیدا کرسکے ۔ سندھ حکومت کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ ، کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی تین سال قبل اپنی تحویل میں لے چکی ہے جبکہ کراچی کے مختلف علاقوں سمیت صوبہ بھر میں جمع ہونے والے کچرے کو اکٹھا کرنے اور اسے ٹھکانے لگانے کے لئے حکومت سندھ نے گزشتہ سال سولیڈ ویسٹ منجمنٹ بورڈ کے نام سے سندھ اسمبلی سے ایک علیحدہ ادارے کی منظوری لی تھی اور اس ادارے کے قیام اور اس کے قوانین کی منظوری کے بعد یہ ادارہ ہمارے علم کے مطابق اس سال اکتوبر سے باقاعدہ کام شروع کردے گا ۔

گھروں سے کچرا لے کر کچرے کنڈیوں تک پہنچانے اور اسے ٹھکانے لگانے کی ذمہ داری بھی اسی ادارے کی ہوگی اس سے قبل انسداد ڈینگی سیل کو پروجیکٹ کا درجہ دے کر کے ایم سی سے فیومیگیشن کی ذمہ داریاں بھی حکومت سندھ نے اپنے ہاتھوں میں لے لی ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حیدرآباد ، سکھر ،لاڑکانہ ، خیرپور اور شکارپور میں کچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا کام سندھ کی اہم شخصیت کی بیٹی و رکن اسمبلی کی فرم نے لیا ہوا ہے ۔

اس ٹھیکے کے نتیجے میں مذکورہ شہروں میں جگہ جگہ کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگ چکے ہیں جبکہ اس فرم کو بلوں کی بلا تاخیر ادائیگی کے باعث متعلقہ بلدیاتی اداروں میں مالی بحران پیدا ہوگیا ہے اور یہ ادارے اپنے ملازمین کو تنخواہیں تک نہیں دے پارہے ہیں۔خدشہ ہے کہ سولیڈ ویسٹ منجمنٹ بور ڈکے تحت کچر ا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کے ٹھیکے دئیے جانے کے بعد یہی صورتحال کراچی میں بھی پیدا ہو۔

سولیڈ ویسٹ منجمنٹ بورڈ کا قیام صوبے کی اہم شخصیت کی بیٹی کی کچرا اٹھانے والی کمپنی کو نوازنے کے لئے بدعنوانی میں آیا ہے۔ چونکہ کراچی میں کچرا اٹھانے سے ٹھکانے لگانے تک کے کاموں میں بیس ہزار سے زائد ملازمین کا روزگار وابستہ ہے اور اتنی بڑی تعداد میں ملازمین کے ممکنہ احتجاج سے بچنے کے لئے سیکریٹری بلدیات سندھ نے وزیر بلدیات کی ہدایت پر سندھ بینک میں اکاؤنٹ کھولنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے تاکہ ملازمین کو ذہنی دباؤ کا شکار بنادیا جائے ۔

گھوسٹ ملازمین کی آڑ لے کر ہر آنے والے ایڈمنسٹریٹر منتخب ناظمین میئر ، چیئرمینوں وغیرہ نے شناختی پریڈ کروائیں ، مانیٹرنگ ٹیمیں تشکیل دیں ۔ یونین کونسل کی سطح پر فوٹو لگا کر حاضری کی شیٹس تیار کرکے چھان بین کی لیکن ماسوائے چند ایک کہ کچھ حاصل نہ ہوسکا اور بھتہ مافیا کا کاروبار چمک اٹھا ۔ اب سندھ بینک کو چلانے اور بلدیاتی اداروں اور ملازمین کے جمع شدہ اثاثوں کی لوٹ مار کرنے کے لئے کے ۔

ایم ۔ سی ، واٹر بورڈ، ڈی ایم سیز کے ستر ہزار سے زائد ملازمین کو 25مارچ تک سندھ بینک میں اکاؤنٹس کھلوانے کی ہدایت دی گئی ہے۔ جسے آج ہم پریس کانفرنس کے ذریعے مسترد کرتے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ جب تک ہمیں اعتما دمیں نہیں لیا جاتا اور ہمارے خدشات کو دور نہیں کیا جاتا اس وقت تک ہم سندھ حکومت کے کسی بھی فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے اس سلسلے میں احتجاجی مظاہرے ، دھرنے ، اہم شاہراہوں کو کچرے کے ڈھیروں میں تبدیل کرنے ، وی آئی پیز کے گھروں کے سامنے کچرا ڈالنے ، سیوریج لائنوں کو بلاک کرنے ، کچرہ اٹھانا بند کرنے سمیت ہر آپشن کو استعمال کرنے پر غور کیا جائے گا۔

لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ سب سے پہلے تنخواہوں کی ادائیگی میں باقاعدگی لاتے ہوئے ہر ماہ کی یکم سے پانچ تاریخ تک تنخواہیں ادا کی جائیں۔ پینشن کی ماہوار ادائیگی کو آن لائن سسٹم کے ذریعے کیا جائے تاکہ اس کی ادائیگی میں بھی باقاعدگی لائی جاسکے۔ پینشنرز کی اکثریت تین سے گیارہ ماہ کی پینشن کی ادائیگی سے محروم ہے ۔لہٰذا ماہوار پینشن کی ادائیگی کو بھی باقاعدگی لائی جائے۔

سندھ بینک میں اکاؤنٹ کھلوانے کا فیصلہ چونکہ بغیر مشاورت کے کیا گیا ہے لہٰذا اسے فوری طور پر واپس لیا جائے تاہم اتنے کم عرصے میں اکاؤنٹ کھلوانا نا ممکن ہے۔جبکہ نادرا کے 2000سے لیکر2005 تک کے جاری کردہ شناختی کارڈوں کے انگوٹھوں کے نشان کا تصدیقی عمل موجود نہیں۔ اسی طرح ملازمین کو عرصہ دراز سے پے سلپ اور محکمہ کا شناختی کارڈ جاری نہیں کیا جارہا ہے جو کہ اکاؤنٹ کھلوانے کیلئے لازمی ہے ۔

سندھ بینک کے مقابلے میں چونکہ حبیب بینک ، نیشنل بینک مستحکم بینک ہیں اور ملازمین کی اکثریت نے ان سے فلیکسی لان لئے ہوئے ہیں ۔ لہٰذا سندھ بینک میں اکاؤنٹ کھلوانے کی شرط واپس لی جائے۔ہم سمجھتے ہیں کہ سولیڈ ویسٹ منجمنٹ بورڈ چونکہ اہم شخصیت کی بیٹی کو نوازنے کیلئے بنایا گیا ہے لہٰذا اسے فوری طور پر ختم کیا جائے ۔شہر کے بلدیاتی اداروں کے اختیارات اور ان کے دائرہ کار کو محدود کرنے کی سازشیں بند کی جائیں۔

البتہ شہر کی تعمیر و ترقی کچرے کو اٹھا کر ٹھکانے لگانے سمیت گھوسٹ ملازمین کے خلاف کاروائی کی حمایت کی جائیگی۔انہوں نے حکومٹت سندھ کو سات یوم کے اندر الائنس کی قیادت سے مزاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے کی ڈیڈ لائن دی ہے اگر سات دن کے اندر معاملات حل نہ کئے گئے تو پھر احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی انہوں نے بلدیہ جنوبی کے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے خصوصی گرانٹ کا مطالبہ کیا ہے۔

متعلقہ عنوان :