سرکاری اداروں کی کارکردگی توقعات کے مطابق نہیں ،بڑھتی آبادی کے تناسب سے ترقی نہ کی تو بھونچال کی سیریز آئیگی‘ احسن اقبال

ہفتہ 28 فروری 2015 15:05

لاہور( اردپوائنٹ۔تازہ ترین اخبار ۔28 فروری 2015)وفاقی وزیر منصوبہ بندی ‘ترقیات اوراصلاحات احسن اقبال نے کہا ہے کہ سرکاری اداروں کی کارکردگی توقعات کے مطابق نہیں ،سال میں ایک ارب کی ایکسپورٹ بڑھ جانے پر ہم تالیاں بجاتے ہیں لیکن ہماری آبادی جس تناسب سے بڑھ رہی ہے اس سے بھونچال کی سیریز آئے گی ،ہمیں دن دوگنی ‘ رات چوگنی محنت کرنا ہو گی اور ایکسپورٹ کو 2025ء تک 150ارب ڈالر تک لیجانا ہوگا اور یہ کوئی ہر کولیس کا ٹاسک نہیں جو ہم نہیں کر سکتے ،نتائج نہ ملنے کیو جہ سے آج لوگوں میں فرسٹریشن بڑھا ہے اور انکے خیال میں ریاست عملاً انکی زندگی سے لا تعلق ہو گئی ہے ، آج دنیا میں پولیو کا شکار صرف دو ممالک پاکستان اور افغانستان ہیں ، دنیا میں ٹی بی کا مرض ختم ہو گیا ہے جبکہ ہمارے ملک میں یہ دوبارہ آرہا ہے اور یہ اشاریے ثابت کرتے ہیں کہ ہم ترقی کرنے والا ملک نہیں ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے 90شاہراہ قائد اعظم پر سرکاری اور عوامی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے حوالے سے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ احسن اقبال نے کہا کہ وفاقی حکومت نے وژن2025کے لئے اڑان کے نام سے جو پراجیکٹ شروع کیا ہے اس کا مقصد قطعاً سول سروس اصلاحات کی ایک اور رپورٹ تیار کرنا نہیں جسے دو سو یا پانچ سو صفحات کی کتاب کی شکل دے کر سجا دیا جائے گا یا اسے لائبریری کی زینت بنا دیا جائے گا بلکہ اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے کس طرح اپنی صلاحیتوں کو بروئے کارلا کر عملدرآمد کی طرف جانا ہے اور جو تجاویز ملیں انہیں کس طرح قابل عمل بنانا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بیمار اداروں ں کا جائزہ لیا ۔ آج آپ حکومت کے کسی بھی محکمے میں چلے جائیں اس کا سیکرٹری ‘ ڈی جی اپنے محکمے کے کسی بھی شعبے کے بارے میں آکسفورڈ کے ہم پلہ نہیں تو اسکے قریب تر پاور پوائنٹس پریذنٹیشن دے سکتے ہیں لیکن جب ہم ایشوز اور اس سیکٹر کو درپیش چیلنج کو دیکھتے ہیں اور نتائج کی بات کرتے ہیں تو ہمیں انتہائی مایوس کن نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس حوالے سے ہم پسماندہ ترین ممالک میں شمار کئے جاتے ہیں لیکن سوچنے کی بات ہے کی ۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم اپنے سول سروس کا دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے سول سروسز کے افراد سے مقابلہ کریں گے تو انفرادی طور پر ہم بہت با صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہیں اور ہماری تربیت اور صلاحیت دنیا کے کسی اور ملک سے کم نہیں ۔ پاکستان واحد ملک ہے جس نے ورلڈ بینک سے قرضہ لے کر اپنے سول سروس کے افسران کو ہارورڈ یونیورسٹی سے ٹریننگ کرائی لیکن جب ہم نتائج کی طرف جائیں تو دو ،تین دہائیوں سے یہ متاثر کن نہیں ۔

سول سرونٹس کی صلاحیت میں تو اضافہ ہو اہے اور یہ اوپر جارہی ہے جبکہ نتائج کو دیکھتے ہیں تو یہ نیچے آرہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جب میونسپل سروس کا نظام تو صفائی بہترین تھی ‘ ماضی میں ٹرینیں بھی ٹھیک چلتی تھیں‘ سرکاری سکولوں میں اچھے نتائج آتے تھے اور سرکاری سنٹر ل ماڈل سکول ایک چوائس ہوتا تھا اور سرکاری سکول نتائج دے رہے تھے ،سرکاری ہسپتالوں میں قدرے بہتر علاج میسر تھا اور ادارے قدر تسلی بخش کام کر رہے تھے جسکی وجہ سے ریاست اور عوام کا رشتہ بندھا ہوا تھا لیکن آج لوگوں میں فرسٹریشن بڑھا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ریاست عملاً انکی زندگی سے لا تعلق ہو گئی ہے ۔

شہری کو اپنی حفاظت چاہیے جو پولیس کا کام ہے لیکن آج انہیں اپنی حفاظت کے لئے پرائیویٹ سکیورٹی گارڈز رکھتے پڑتے ہیں ‘ ریاست بجلی دینے سے قاصر ہے جسکی وجہ سے عوام کو جنریٹرز اور دیگر متبادل نظام کرنا پڑتا ہے ، صفائی میونسپل کی ذمہ داری ہے لیکن آج گلے محلے کے لوگوں کو صفائی کے لئے پیسے اکٹھے کرنے کے لئے پول کرنا پڑتا ہے ، نلکے کا پانی پینا تقریباًبیماری ہے جسکی وجہ سے لوگ منرل واٹر پر آ گئے ہیں ۔

سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجہ نہ ہونے کی وجہ سے عوام پرائیویٹ ہسپتالوں کے محتاج ہیں تعلیم سرکاری نہیں بلکہ پرائیویٹ سکولوں میں ہے ۔ لیکن اس پوٹینشل کے بڑے حیرت انگیز تجزبات اور مشاہات ہیں ۔ میرے حلقے کے تمام سکولوں کے ہیڈ ماسٹرز کی تنخواہیں 95ہزار سے ایک لاکھ 5ہزار تک ہے جبکہ پورے ضلع میں کسی پرائیویٹ سکول کے سربراہ کو اس سے آدھی بھی تنخواہ نہیں ملتی لیکن جب ہم نتائج دیکھتے ہیں تو پرائیویٹ سکولوں کے نتائج سرکاری سکولوں سے بہتر آتے ہیں ۔

یہ درست ہے کہ تنخواہیں زیادہ ہونی چاہیے اور ہم دو گنا تنخواہیں دے رہے ہیں لیکن نتائج پرائیویٹ سکولوں سے زیادہ نہیں تو کم از کم اس کے برابر تو ہونے چاہئیں اوریہ چیلنج بن چکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں سٹڈیز کی جا چکی ہیں کہ کارکردگی کا بیس فیصد انحصار لوگوں جبکہ 80فیصد نظام پر ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کسی دور میں اصلاحات دانشوری کا نام تھا لیکن اگر آج آپ ترقی کرنا چاہتے ہیں تو اصلاحات آکسیجن کا نام ہے اگر ہم خود کو تبدیل نہیں کریں گے تو ہمیں زمانہ تبدیل کرے گا اور پھر ہم انکی تبدیلی کو پسند نہیں کریں گے ۔

انہوں نے کہا کہ آج ہمیں ترقی کے لئے اپنے ملک کی چار دیواری تک محدود نہیں ہونا آج غیر روایتی گلوبلائزیشن تبدیلی ہے ۔ آج ہر ملک آگے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لئے مقابلہ کر رہا ہے ۔ جب تک انفراسٹر اکچر ‘ ہیومن ریسورس ‘ گڈ گورننس اور بزنس فرینڈلی ماحول نہیں ہوگا تو کوئی بھی سرمایہ کاری آپ کی بجائے اس ملک کو ترجیح دے گا جہاں اسے یہ سب چیزیں میسر ہوں گی ۔

انہوں نے کہا کہ آج ہم ایکسپورٹ 18سے 19ارب ہونے پر تالیاں بجاتے ہیں ،ہمیں سالانہ پونے دو سے دو اورسوا دو ‘ اور تین سے سوا تین ارب کی ترقی کی رفتار کو چھوڑ کر دن دوگنی ‘رات چوگنی ترقی کرنا ہو گی ۔ ہمیں 2025ء ء تک اپنی ایکسپورٹ کو 150ارب ڈالر تک لیجانا ہوگا ورنہ بھونچال کی سیریز آئے گی ۔مایکسپورٹ کو اس ہدف تک لیجانا کوئی ہر کولولیس کا ٹاسک نہیں ہم یہ کر سکتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں پولیو ختم ہو چکا ہے نائیجیریا بھی اس سے جان چھڑا رہا ہے لیکن پاکستان اور افغانستان اس سے جان نہیں چھڑا سکے ۔ ٹی بی کا مرض پوری دنیا میں ختم ہو گیا ہے جبکہ پاکستان میں یہ مرض پھر بڑھ رہا ہے ،یہ اشاریے ثابت کرتے ہیں کہ ہم ترقی کرنے والا ملک نہیں اور دنیا ہم پر ہنستی ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دے رہی ہے۔ عوامی تجاویز پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا ۔