اراکین پارلیمنٹ اور سماجی رہنماوٴں کاسکول کے نصاب میں سے انتہا پسندانہ سوچ پر مبنی مواد کے اخراج کا مطالبہ

ہفتہ 28 فروری 2015 13:42

اسلام آباد(اردپوائنٹ۔تازہ ترین اخبار ۔28 فروری 2015) اراکین پارلیمنٹ اور سماجی رہنماوٴں نے اسکول کے نصاب میں سے انتہا پسندانہ سوچ پر مبنی مواد کے اخراج کا مطالبہ کیا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق مختلف سیاسی و سماجی پس منظر اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے مقررین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ تعلیمی نظام میں سے انتہاء پسندی کا خاتمہ کیا جائے۔جمعیت علمائے اسلام ف کی رکن قومی اسمبلی آسیہ ناصر نے کہا کہ ماضی میں سیاسی طور پر امتیازی سلوک کے مظاہرے کی وجہ سے ہم نے سولہ دسمبر 1971ء کو ملک کا ایک حصہ گنوا دیا تھا۔

آسیہ ناصر نے کہا کہ ”پھر تعلیمی نظام میں بنیاد پرستی پیدا کی گئی، اور ہم نے پشاور میں سولہ دسمبر 2014ء میں اسکول پر لرزہ خیز حملے کا سامنا کیا۔“انہوں نے کہا کہ پاکستان جنوبی ایشیا کی اقلیتوں کی جانب سے قائم کیا گیا تھا اس لیے کہ انہیں خدشہ تھا کہ اکثریتی برادری ان کے ساتھ مناسب سلوک نہیں کرے گی۔

(جاری ہے)

پی ٹی آئی کی اقلیتی رکن صوبائی اسمبلی شہنیلا روتھ کا کہنا تھا کہ تعلیمی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ”یہاں ایک قانون کے تحت صرف مسلمان پنجاب میں ووکیشنل ٹریننگ کونسل کے اداروں میں داخلہ لے سکتے ہیں۔“انہوں نے کہا کہ غیرمسلموں کو 170 ٹیکنیکل ٹریننگ کے مراکز میں داخلہ نہیں دیا جاتا، اس لیے کہ وہ زکوٰة فنڈز سے چلائے جاتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ یہ ادارے غیرملکی بالخصوص یورپی امداد بھی وصول کررہے ہیں۔شہنیلا روتھ نے کہا کہ ”ایک وقت تھا کہ پاکستان میں مسیحی معاشرے کے تعلیم یافتہ طبقے کے طور پر پہنچانے جاتے تھے، لیکن اب ان کی حیثیت سینیٹری ورکرز تک محدود کردی گئی ہے۔

“نامور شاعرہ کشور ناہید نے کہا کہ پاکستانی معاشرہ انتہا پسندوں کا گروپ نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ ”نقاب کے ساتھ یا اس کے بغیر ہم سب اس معاشرے کا حصہ ہیں۔“کشور ناہید نے کہا کہ اسکول کی کتابوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جیسا کہ اسلامک اسٹڈیز اور سوشل اسٹڈیز کی کتابیں تقریباً ایک جیسی ہیں۔

متعلقہ عنوان :