ملازمت کرنے والی خواتین تحفظ کو ایسا ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ تحفظ کے احساس کے ساتھ اپنا کردار ادا کر سکیں،جسٹس ریٹائرڈ پیر علی شاہ

جمعہ 27 فروری 2015 22:20

حیدرآباد(اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار. 27 فروی 2015ء)ملازمت کے مقامات پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف خواتین کو تحفظ فراہم کرنے والے ادارے کے محتسب سندھ جسٹس ریٹائرڈ پیر علی شاہ نے کہا ہے کہ خواتین کی عزت نفس کو برقرار رکھتے ہوئے سرکاری و نجی دفاتر ، اداروں یا گھروں میں ملازمت کرنے والی خواتین تحفظ کو ایسا ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ تحفظ کے احساس کے ساتھ اپنا کردار ادا کر سکیں، موصول ہونے والی 65شکایات میں سے 54 کا فیصلہ کیا جا چکا ہے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ افہام و تفہیم سے شکایت کو دور کیا جائے اور انصاف کو بھی برقرار رکھا جائے۔

محتسب سندھ جسٹس ریٹائرڈ پیر علی شاہ نے سرکٹ ہاؤس میں جمعہ کو ایک شکایت کی بھی سماعت کی اور بعد میں میڈیا سے بھی گفتگو کی، اس موقع پر صوبائی سیکریٹری امبرین انصاری ، انسانی حقوق کے مختلف اداروں کی نمائندہ خواتین بھی موجود تھیں۔

(جاری ہے)

خواتین کے تحفظ کے ادارے کے محتسب جسٹس پیر علی شاہ نے ایک سوال پر بتایا کہ ان کے پاس ازخود نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہے تاہم اب تک صوبے میں 14 مراکز شکایات کھولے جا چکے ہیں اور بتدریج ا ن میں اضافہ ہو رہا ہے، ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ بعض مرتبہ کیس سننے پر پتہ چلتا ہے کہ اگر مرد نے پانچ ایس ایم ایس کئے ہوتے ہیں تو خاتون کی طرف سے آٹھ ایس ایم ایس ریکارڈ پر پیش کئے جاتے ہیں اس طرح کے معاملات میں دونوں کو قصوروار ٹھہرا کر ان کو انتباہ کیا جاتا ہے یا کاروائی کی جاتی ہے، انہوں نے کہا کہ سانگھڑ میں ان کے علم میں یہ بات آئی تھی کہ خواتین نرسوں کو تنخواہ نہیں دی جا رہی جس پر انہوں نے جواب طلبی کی تو دو ہفتے میں انہیں تنخواہ دے د ی گئی، انہوں نے کہا کہ آئندہ آہستہ آہستہ ادارے کے دائرہ کار میں توسیع ہوتی جائے گی کیونکہ قانون سازی کا اختیار سینٹ کے پاس ہے، انہوں نے کہا کہ ہم بغیر کسی دباؤ کے آزادانہ ماحول میں کام کر رہے ہیں اور سندھ حکومت ہمیں مکمل تعاون فراہم کر رہی ہے، انہوں نے میڈیا سے بھی اپیل کی کہ چونکہ 50 فیصد خواتین آبادی قومی ترقی کے لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتی ہے اس لئے ان کے بہتر ماحول میں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے سلسلے میں ادارے سے تعاون کیا جائے، انہوں نے کہا کہ ہم متوازن فیصلے کرتے ہیں اور عام طور پر یہ فیصلے افہام و تفہیم سے کئے جاتے ہیں، انہوں نے اس تجویز سے اتفاق کیا کہ نجی اسکولوں میں کام کرنے والی خواتین کو برائے نام تنخواہ دینے کا معاملے کا بھی نوٹس لیا جانا چاہیے تاہم چونکہ اس وقت یہ معاملہ ان کے اختیار میں نہیں ہے مگر آگے چل کر ممکن ہے کہ دائرہ کار میں وسعت کے ساتھ اس معاملے کو بھی دیکھا جا سکے، انہوں نے کہا کہ صوبائی محتسب سندھ کے آفس ملازمت کے مقامات پر خواتین کو ہراساں کرنے والے ادارے کے قائم ہونے کے بعد اس وقت تک جنسی ہراساں کرنے کے حوالے سے سندھ بھر سے 65 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے 54 درخواستوں کی سماعت کے بعد الزام ثابت ہونے پر قانونی کاروائی کرتے ہوئے تنبیہ کرنے ، ترقی یا انکریمنٹ کو مخصوص مدت کے لیے روکنے، ٹائم اسکیل کو مخصوص مدت تک روکنے، درخواست کنندہ اور ملزم کے درمیان صلح کراتے ہوئے فریادی سے معافی مانگنے اور ملزم کاتبادلہ کرنے جیسی کاروائیاں شامل ہیں، انہوں نے کہا کہ ایک کیس میں الزام ثابت ہونے پر مجرم کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے اسے نوکری سے برطرف کرنے کی سفارش کی گئی مگر درخواست کنندہ کی جانب سے معاف کرنے کے بعد یہ کارروائی روک دی گئی، انہوں نے کہا کہ حیدرآباد میں آج تین درخواستوں کی سماعت کی گئی جس میں سے دو کیسز کی کاروائی مکمل کرتے ہوئے صلح اور معافی پر کیسز ختم کیے گئے جبکہ ایک کیس پر سماعت ابھی جاری ہے، انہوں نے کہا کہ ملازمت کے مقامات پر خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے قانون بننے کے بعد ملک میں سب سے پہلے حکومت سندھ کی جانب سے یہ ادارہ قائم کیا گیا جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین بغیر کسی خرچ کے اپنی شکایات یہاں درج کروا سکتی ہیں، انہوں نے کہاکہ ملازمت کرنے والی کوئی بھی خاتون جنسی ہراساں ہونے کی صورت میں واقعہ کے خلاف تشکیل دی گئی انٹرنل ڈپارٹمینٹل انکوائری کمیٹی یا صوبائی محتسب سندھ کے دفتر میں شکایات درج کروا سکتی ہیں، انہوں نے کہا کہ اس وقت تک سرکاری و نجی اداروں کی جانب سے 374 ڈپارٹمینٹل انکوائری کمیٹیز تشکیل دی جاچکی ہیں جبکہ مختلف اداروں کو کمیٹیاں بنانے کے حوالے سے لیٹرز بھی ارسال کر دیئے گئے ہیں۔

سیکریٹری امبرین انصاری نے کہا کہ اس وقت تک سندھ بھر میں 15 ڈسٹرکٹ کمپلین سینٹرز قائم کیے گئے ہیں جبکہ دیگر اضلاع میں بھی ایسے مراکزکھولے جائیں گے جہاں خواتین باآسانی اپنی شکایات درج کروا سکیں گی، انہوں نے کہا کہ خواتین معاشرے کی معمار ہیں انہیں تحفظ فراہم کرنا درحقیقت ملکی ترقی کو تحفظ فراہم کرنا ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ کی جانب سے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے مختلف اسٹیک ہولڈرز کی سفارشات کے مدنظرقانون سازی کے لیے حکمت عملی تشکیل دی جارہی ہے ۔