غیر جمہوری ،انتہا پسند عناصر کی تحریک پر آئین میں پہلے ہی کئی ناگوار تبدیلیاں لائی جاچکی ہیں،تاج حیدر

جمعرات 26 فروری 2015 16:24

کراچی(اردپوائنٹ۔تازہ ترین اخبار ۔26 فروری 2015)پاکستان پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری سینیٹر تاج حیدر نے کہا ہے کہ غیر جمہوری اور انتہا پسند عناصر کی تحریک پر آئین میں پہلے ہی کئی ناگوار تبدیلیاں لائی جاچکی ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ غیر نظریاتی سیاسی عناصر اپنے اندر تبدیلیاں لائیں اور آئین کو مزید مسخ کرنے سے باز آئیں ۔ آئین میں ترمیم کرکے سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری سے گریزکرنے کا مطالبہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ ان جماعتوں کی قیاد ت خود اپنے نام نہاد منتخب نمائندوں کی دیانت پرشک کررہی ہے ۔

یہ غیر نظریاتی سیاسی جماعتیں صرف دوسروں کے اندر ہر عیب تلاش کرکے اپنی سیاسی دکان چمکاتی رہی ہیں ۔ بزعم خود دوسرے سب ابلیس اور یہ خود فرشتے تھے ۔

(جاری ہے)

آج ان کا غرور اور تکبر ان کے سامنے آرہا ہے اور یہ اپنے ان ہی فرشتوں سے خوفزدہ ہیں۔ یہ ان فرشتوں کے پر کاٹنے کے درپے ہیں کہ کہیں فرشتوں کی لوٹ سیل میں ان کے یہ ہر برائی سے مبرا فرشتے خود کواور اپنی جماعتوں کو بیچ نہ ڈالیں ۔

طالبان اور اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں تار یخی دھاندلی کرکے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے انتخابات جیت لئے گئے ۔ آج یہ اپنی اس کھوکلی جیت کو تحفظ دینے کے لئے آئین کا ایک بار پھر حلیہ بدلنے کے درپے ہیں ۔ ترقی پسند نظریاتی جماعتوں کو کسی قسم کا خوف نہیں ہے ۔ انہوں نے اور ان کے کارکنوں نے مذہبی انتہا پسندوں اور فوجی آمروں کے خلاف دلیرانہ جد و جہد کی ہے اور بے مثال قربانیاں پیش کی ہیں ۔

جمہوریت اور عوام کے حقوق اور آزادیوں کے لئے طویل صبر آزما جدو جہد نے عوامی شعور کو بیدار کیا ہے اور ان کے سیاسی کارکنوں کو ناقابل شکست حوصلہ دیا ہے ۔ اپنے قائدین کی پے در پے شہادتوں نے ان کے لئے ایسی روشن مثالیں قائم کی ہیں کہ کو ئی بھی ظلم ان کے عزم کو کمزور نہیں کرپاتا ہے اور بڑی سے بڑی آمریت ان کی جماعتوں اور ان کے نظریات کو ختم نہیں کرپائی ہے ۔

یہ درست ہے کہ بعض اوقات جدوجہد کے کٹھن مراحل پر نظریاتی طور پر کمزور کچھ عناصر ان پارٹیوں کا ساتھ چھوڑ گئے ہیں لیکن یہ غداریاں ہمیشہ ان عناصر کی سیاسی موت ثابت ہوئی ہیں ۔سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ رجعت پسند غیر نظریاتی جماعتیں مقامی طور پر بااثر اور موقع پرست افراد کے ایک ڈھیلے ڈھالے مجموعے سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔ ان کی جڑیں عوام میں نہیں ہوتیں اور غیر جمہوری عناصرکی سرپرستی میں جمہوریت اور ترقی پسندی کا راستہ روکنے کے لئے ان کومختلف سیاسی پلیٹ فارموں پر جمع کرکے منظر عام پر لایا جاتاہے ۔

لیکن ان کی کوئی بھی کامیابی دیر پا ثابت نہیں ہوتی اور یہ کتنے ہی بڑے بڑے اتحاد کیوں نہ بنالیں جب ڈوریاں ہلتی ہیں تو ان کے قدم اکھڑ جاتے ہیں اور یہ بدترین اندرونی انتشار کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ جب یہ گرنے لگتے ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے ساتھ ہر اس چیز کو گرادیں جو ہمارے سماج کو مستحکم کر رہی ہے اور اس کو ترقی کی جانب لے جارہی ہے ۔

ان کی بدقسمتی کہ زمانہ بدل چکا ہے اور عوام ان کی حقیقت سے آشنا ہوچکے ہیں ۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ آئین میں تبدیلیاں لانے کے بجائے نچلی سطح سے اوپر تک ایک ایسا انتخابی طریقہ کار لانے کی ضرورت ہے جو مسلح گروہوں اور اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے راستوں کو بند کردے ۔ جمہوریت اور دہشت گردی ، جمہوریت اور اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ۔ اگر دوسرے ممالک میں ایسا کرنا ممکن ہے تو آخر ہم ان ممالک کے تجربے سے سیکھ کر اپنے ملک میں ایماندارانہ انتخابات کو یقینی کیوں نہیں بنا سکتے ۔