دہشتگردی کیخلاف جنگ جیتنے کیلئے ” مرو یا مارو اور اب نہیں تو کبھی نہیں“ کے جذبے سے لڑنا ہوگا‘ وزیر اعلیٰ پنجاب،

قوم نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں قربانیوں کی تاریخ رقم کی ،مزید قربانیاں بھی دینا ہو گی ،انشا اللہ وہ دن بھی جلد آئے گا جب اس نا سور کا مکمل خاتمہ اور صفایا ہو جائے گا، حکومت ،عسکری قیادت دہشتگردی کیخلاف جنگ میں مکمل یکسو ہے ،دہشتگردی کا خاتمہ صرف بندوق کی گولی سے ممکن نہیں ، غربت بیروزگاری کے خاتمے ،تعلیم کے فروغ اور علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی کی گولیاں بھی چلانا ہوں گی ، انتہا پسندی صرف مدارس سے نہیں جڑی ہوئی ،یہ چند یونیورسٹیوں، کالجز ،دفاتر، کارخانوں میں بھی ہے ،یہ کسی مخصوص جگہ کا نہیں بلکہ ذہنیت کا نام ہے جسکے خاتمے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں، مدارس ‘ سکولوں ‘ کالجز اور یونیورسٹیوں میں صبروتحمل ‘برداشت اور ایک دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ رکھنے کے حوالے سے مضامین کو نصاب کا حصہ بنانے پر کام شروع ہو چکا ہے ، پنجاب کے پانچ بڑے شہروں میں ” سیف سٹی “کا منصوبہ شروع کرنے جارہے ہیں ،آغاز لاہور سے ہوگا ،ایک ہزار بائیو میٹرک مشینیں ، گاڑیوں کی چیکنگ کیلئے سکینرز تین سے چار ہفتوں میں پاکستان پہنچ جائینگے ،شہباز شریف کی ماڈل ٹاؤن پریس کانفرنس

بدھ 25 فروری 2015 19:28

دہشتگردی کیخلاف جنگ جیتنے کیلئے ” مرو یا مارو اور اب نہیں تو کبھی نہیں“ ..

لاہور( اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار. 25 فروری 2015ء) وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ جیتنے کیلئے ” مرو یا مارو اور اب نہیں تو کبھی نہیں“ کے جذبے سے لڑنا ہو گا ،قوم نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کی تاریخ رقم کی ہے اور مزید قربانیاں بھی دینا ہو گی اور انشا اللہ وہ دن بھی جلد آئے گا جب اس نا سور کا مکمل خاتمہ اور صفایا ہو جائے گا،حکومت اور عسکری قیادت دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مکمل یکسو ہے ،دہشتگردی کا خاتمہ صرف بندوق کی ایک گولی سے ممکن نہیں بلکہ اسکے لئے غربت اور بیروزگاری کے خاتمے ،تعلیم کے فروغ اور علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی کی گولیاں بھی چلانا ہوں گی ، انتہا پسندی صرف مدارس سے نہیں جڑی ہوئی بلکہ یہ چند یونیورسٹیوں، کالجز ،دفاتر، کارخانوں میں بھی ہے ،یہ کسی مخصوص جگہ کا نہیں بلکہ ذہنیت کا نام ہے جسکے خاتمے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں، مدارس ‘ سکولوں ‘ کالجز اور یونیورسٹیوں میں صبروتحمل ‘برداشت اور ایک دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ رکھنے کے حوالے سے مضامین کو نصاب کا حصہ بنانے پر کام شروع ہو چکا ہے ،پنجاب کے پانچ بڑے شہروں میں ” سیف سٹی “کا منصوبہ شروع کرنے جارہے ہیں اور اس کا آغاز لاہور سے ہوگا،ایک ہزار بائیو میٹرک مشینیں اور گاڑیوں کی چیکنگ کے لئے سکینرز تین سے چار ہفتوں میں پاکستان پہنچ جائیں گے ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہارا نہوں نے گزشتہ روز 180ایچ ماڈل ٹاؤن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر صوبائی وزیر خزانہ مجتبیٰ شجاع الرحمن ‘ صوبائی وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ ‘ سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان ‘ صوبائی وزیر اوقا ف عطا مانیکا ‘ زعیم حسین قادری اور دیگر بھی موجود تھے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان میں دہشتگردی راتوں رات نہیں آئی اور یہ راتوں رات ختم بھی نہیں ہو گی بلکہ اسکے خاتمے کے لئے بھی وقت درکار ہے اور ہمیں صبر و تحمل سے یہ جنگ لڑنا ہوگی ،میں مایوسی کی بات نہیں کر رہا ، پاکستانی قوم نے اس جنگ میں قربانیاں دے کر تاریخ رقم کی ہے اور اسکے لئے مزید قربانیاں دینا ہوں گی اور انشا اللہ وہ دن بھی آئے گا جب اس کا ملک سے مکمل خاتمہ اور صفایا ہو جائے گا اور پاکستان اقوام عالم میں پر امن او رخوشحال ملک کے طور پر ابھرے گا ۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں وفاق اور چاروں صوبوں میں مکمل آہنگی ہے اور کوئی غلط فہمی میں نہ رہے کہ اس میں لیت و لعل سے کام لیا جائے گا یا کوئی سمجھوتہ یا اسے نظر انداز کیا جائے گا ۔ اب اس میں کوئی غفلت برداشت کی جائے گی اور نہ ہمارے پاس کوئی موقع ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں کرپشن کے خاتمے کے لئے دن رات کام ہو رہا ہے ،معدنیات ڈھونڈنے کے لئے وسائل درکار ہیں اور انہیں پیدا کرنے کیلئے مشکلات اور چیلنجز درپیش ہیں اگر اس ملک میں دہشتگردی اسی طرح جاری و ساری رہی تو ترقی و خوشحالی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا پھر ہمیں غربت و بیروزگاری ‘ کرپشن کے خاتمے اور وسائل پیدا کرنے کیلئے مہمات کو آگے بڑھانے کو بھول جانا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مکمل یکسو ہے اور اسی حوالے سے عسکری قیادت بھی یکسو ہے ۔چاروں صوبے مل کر اور 18کروڑ عوام کے اتحاد اور سپورٹ سے ایک دن اللہ کے فضل سے اس سے چھٹکارا حاصل کریں گے کیونکہ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ پاکستان آج جن حالات سے دوچار ہے پاکستان کے قیام کے لئے قربانیاں دینے والے شہیدوں کی روحیں قبروں میں تڑپ رہی ہوں گی ۔

اب بھی دیر نہیں ہوئی اگر ہم ایمانداری سے عمل کریں گے تو اللہ کا فضل و کرم شامل ہوگا تو ہم اس عفریت سے نجات حاصل کر لیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے دہشتگردی ،انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے دورس اقدامات کئے ہیں اور اسکے لئے قوانین میں تبدیلی کی گئی ہے ،اصلاحات لا ئی جارہی ہیں اور اور ایگزیکٹو عملدرآمد کرایا جارہا ہے ۔

قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے نہ صرف جرمانے رکھے گئے ہیں بلکہ قید کی شقیں بھی شامل کی گئی ہیں ۔ شیڈول فور میں شامل تمام افراد کو گرفتار کیا ہے ۔ عدالت عالیہ سے بھی باضابطہ درخواست کی ،انسداد دہشتگردی عدالتوں کو فعال کیا گیا ہے اور سنگین مقدمات کا نوٹس لے رہی ہیں ۔ پراسیکیوشن اپنا کام کر رہا ہے جبکہ فوجی عدالتوں کے قیام کے علاوہ اپیکس کمیٹی کے تواتر سے اجلاس ہو رہے ہیں جس میں ہر پہلو کا جائزہ لیا جاتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ مدارس ‘ یونیورسٹیوں ‘ کالجز اورسکولوں میں صبر وتحمل ‘برداشت اورایک دوسرے کی بات کو سننے کا حوصلہ پیدا کرنے کے مضامین کو نصاب کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس پر کام شروع ہو چکا ہے ۔ نظموں کو اس کا حصہ بنائیں گے جس سے قوم کو محبت‘ ایثار اور قربانی کاپیغام ملے اور اسی باہمی رواداری سے اتفاق پیدا ہو گا ۔

وزیر اعلیٰ پنجاب نے مزید کہا کہ پہلی انسداد دہشتگردی فورس کی پہلی کھیپ میدان عمل میں آ چکی ہے جبکہ دوسری کھیپ اپریل جبکہ تیسری جولائی ‘اگست میں میدان عمل میں آجائے گی اور مجموعی طور پر 1500 جوانوں اور خواتین آپریشن‘ انوسٹی گیشن اور انٹیلی جنس کے شعبوں میں کام کریں گے۔ اس فورس کے لئے ہیلی کاپٹرز خریدے جارہے ہیں جبکہ انہیں بلٹ پروف جیکٹس ‘ جدید اسلحہ اور آلات سے بھی لیس کر رہے ہیں او ریہ صحیح معنوں میں اعلیٰ پائے کی فورس بن کر ابھرے گی باقی صوبے میں اس میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح کوئیک رسپانس فورس کو بھی افواج پاکستان کے انسٹرکٹر ز تربیت دے رہے ہیں اور اس میں دوست ممالک نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے ۔جنوبی ایشیاء کی پہلی جدید فرانزک لیب لاہور میں کام کر رہی ہے جس کا دائرہ کار پنجاب کے نو ڈویژن تک بڑھایا جارہا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ سیف سٹی منصوبے کے پہلے مرحلے میں اس کا آغاز لاہور سے آغازکیا جائے گا جبکہ پنجاب کے پانچ بڑے شہروں میں اسکی بنیا درکھی جائے گی ۔

اس منصوبے کو اس سال کے آخر تک مکمل کر لیں گے ،پاکستان کا پہلا سیف سٹی کا منصوبہ قیام عمل میں آ چکا ہے جس میں ہزاروں کی تعداد میں کیمرے لگائے جائیں گے‘ کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم اور انفارمیشن ٹیکنالوجی انویشن ہوں گے جس میں گلی محلے کی لڑائی ‘ اجتماع ‘ چوری چکاری کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم سے جائزہ لیا جا سکے گا اور بروقت موقع پر پہنچا جا سکے گا ۔

انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کے لئے اربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں لیکن اسکے لئے اخراجات پنجاب حکومت خود کرے گی ۔ پونے دو سال ہو چکے ہیں وفاق نے ہمیں ایک دھیلا بھی نہیں دیا ، وفاق نے ہمیں مالی طور پر کوئی سپورٹ نہیں کیا لیکن اسکی گائیڈ لائنز دیتی ہے لیکن اسکے سو فیصد اخراجات پنجاب کے اپنے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں اچھے اور برے کے حوالے سے کنفیوژن ‘جھول اور غلط فہمی تھی لیکن اب یہ ختم ہو چکا ہے ۔

سیاسی ‘ عسکری قیادت اور مذہبی قیادت میں بھی اب اچھے اور برے کی تفریق ختم ہو گئی ہے اور تمام برے ہیں ۔ماضی میں اس کنفیوژن کے نقصان ہوئے لیکن آج میں یقین سے کہتا ہوں کہ وزیر اعظم کی سربراہی میں سیاسی قیادت واضح ہے ‘ عسکری قیادت واضح ہے اب ہم سب بیٹھ کر یکسوئی اور اتفاق رائے سے فیصلے کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگرد‘ انکے دوست‘ معاونت کار اور سہولت کار سن لیں اب کسی قسم کا لحاظ نہیں کیا جائے گا ، پنجاب حکومت پوری قوت اور کمٹمنٹ کے ساتھ ان کے خلاف صف آراء ہے اور انکے خلاف اقدامات کئے جارہے ہیں آگے چل کر ان میں مزید اضافہ کیا جائے گا کیونکہ انکے خاتمے کے بغیر ملک کو شدید خطرات کا سامنا رہے گا اور پاکستان کبھی بھی ترقی اور خوشحالی کی منازل طے نہیں کر سکے گا اورقائد اعظم اور علامہ اقبال کا خواب ادھورا ہی رہے گا ۔

انہوں نے کہا کہ جب 1940ء میں قرارداد پاکستان منظو رہوئی تھی تو اس وقت کوئی شیعہ‘ اہل حدیث ‘ دیو بند نہیں تھا بلکہ اس وقت سب بطور پاکستانی پاکستان کا نعرہ لگانے آئے تھے اس وقت سب پاکستانی او رمسلمان تھے ۔ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بعد میں آئی ، یہ قرارداد پاکستان‘ اس نظریے اور سوچ کی بھی نفی ہے ۔ ہم نے 68سالوں سے اس نظریے سے بد عہدی کی ہے جو اپنی جگہ افسوسناک واقعہ ہے ۔

انہوں نے کہا کہ آج ” مرو یا مارو اور اب نہیں تو کبھی نہیں “کی نہج پر پہنچ چکے ہیں اگر ہم نے اس جذبے سے دہشتگردی کے خلاف جنگ نہ لڑی تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گے اور خدانخواستہ پاکستان کبھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ جو قوانین صوبے کی سطح پر تبدیل ہونے تھے وہ کئے ہیں او رجو وفاق سے متعلقہ ہیں انہیں سفارشات کی صورت میں بھجوا دیا ہے ۔

ہم مدارس ‘ سکولوں‘ یونیورسٹیوں اور کالجز کے نصاب میں بلا تفریق مذہبی منافرت ‘ انتہا پسندی کو بردباری ‘ صبرو تحمل اوربرداشت کے مضامین سے تبدیل کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان کہیں بندوق نہ اٹھالیں اس لئے ان میں لیپ ٹاپ تقسیم کئے ‘ اپنا روزگار سکیم کے تحت پچاس ہزار گاڑیاں شفاف طریقے سے بلا سود اور آسان اقساط پر دیں ۔

آشیانہ ہاؤسنگ کی توسیع کر رہے ہیں اور آٹھ سے دس ہزار بے گھروں کو گھر ملیں گے۔انہوں نے کہا کہ کرپشن کے جبڑے سے چھین کر چنیوٹ سے ملنے والے معدنیات کے ذخائر صرف پنجاب نہیں بلکہ اٹھارہ کروڑ عوام کی جھولی میں ڈالے ۔آج اگر ہم دہشتگردی کے ناسو کو نہیں کچلیں گے تو ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے بتایا کہ ایک ہزار بائیو میٹرک مشینیں منگوا رہے ہیں جو تین سے چار ہفتے میں پہنچ جائیں گے جس سے مشکوک افراد کو فوری پکڑا جا سکے گا اسی طرح سکینرز منگوائے جارہے ہیں جس سے پوری کی پوری گاڑی کی تلاشی لی جا سکے گی ۔

انہوں نے کہا کہ افغان مہاجرین کا سروے کیا جارہا ہے جو پاکستان میں رہائش کے دستاویزی ثبوت دکھائیں گے انہیں رہنے کی اجازت ہو گی جبکہ غیر قانونی رہائش رکھنے والوں کو واپس بھجوا دیا جائے گا۔ پنجاب میں مدارس کی میپنگ کر رہے ہیں ۔ شیڈول 4میں شامل افراد بغیر بتائے نکل جاتے تھے انکے لئے انتظام کیا ہے انکے لئے خصوصی چپ ہو گی جو انکے پاؤں میں لگائی جائیں گی اگر وہ اسے اتاریں گے یا توڑیں تو پتہ چل جائے گا اور اس سے انکی نقل و حرکت بھی نوٹ ہو سکے گی۔

انٹیلی جنس کو مضبوط کر رہے ہیں ،اعلیٰ معیار کی انٹیلی جنس کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لئے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں اور اسے مربوط بنائیں گے۔انٹیلی جنس کے لئے بہترین نصاب لے کر آرہے ہیں اور اسکے لئے دوست اور برادر ممالک سے بھی رابطے میں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سوشو اکنامک ٹولز کوتیزی سے آگے بڑھا رہے ہیں جب تک غربت کا خاتمہ نہیں ہوگا‘ بیروزگار ی کا خاتمہ نہیں ہوگا تو بندوق کی گولی ایک حد تک کام کر سکتی ہے ۔

ہمیں دہشتگردی کے خاتمے کے لئے تعلیم کے فروغ ، علا ج معالجے کی سہولیات ‘ بیروزگاری کے خاتمے کی گولیاں بھی چلانی ہو ں گی اور تمام گولیاں چل کر ہی دہشتگردی کا خاتمہ کر سکتی ہیں ،یہ بھول ہے کہ صرف ایگزیکٹو آرڈر اسکے خاتمے میں کام کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگ میں کامیابی کے لئے میڈیا کا بھی بڑا کردار ہے ہمیں میڈیا کی بھی رہنما ئی چائیے ۔

الزام برائے الزام اور منفی پہلو تلاش کر کے دکھانا مایوسی کے مترادف ہے ۔ میڈیا کو چاہیے کہ فاصلے کم کریں ‘ صلح جوئی کا کام کریں اور اسکے لئے فوکل پوائنٹ بنائیں ۔ انہوں نے کہا کہ لا حاصل چیزوں کو ڈسکس نہیں کرنا چاہیے ۔ آج دیکھ لیا جائے شام ‘ عراق لیبیا ‘ یمن اور افغانستان کا کیا بنا ۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے مقدمات بڑے حساس معاملات ہیں ، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ عدلیہ کے ججز کو بلٹ پروف گاڑیاں لے کر دینے جارہے ہیں اور ایسا نظام لے کر آئیں گے کہ معاملہ چلتا رہا اور اس میں کوئی رکاوٹ نہ آئے ۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فیس لیس ججز اور فیس لیس گواہان لے کر آئیں ۔ انہوں نے جیلوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے سختی سے احکامات جاری کئے ہیں اور جیلوں میں جیمبرز لگائے گئے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ معاملات سوفیصد بہتر ہو گئے ہیں لیکن ان میں بہتری ضرور آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کی اپیکس کمیٹی کی مشاورت سے مرکز کو 43دہشتگردی کے کیسز بھجوا دئیے ہیں اور اسکے چھاننی لگا کر عدالتوں کو بھجوائے جائیں گے اور اس میں دس فائنل ہو چکے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ دینی مدارس میں زیر تعلیم 400کے لگ بھگ طلبہ جنکے ویزے کی میعاد پوری ہو چکی ہے اس حوالے سے وفاق کو لکھ چکے ہیں اور جیسے ہی اجازت ملے گی انہیں ڈی پورٹ کر دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ انتہا پسندی صرف مدارس سے نہیں جڑی ، ملک میں قائم مدارس کی اکثریت میں حدیث ‘ قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے اور ان میں قابل احترام اساتذہ ‘ مفتیان ‘ عالم اورسکالرز تعلیم دیتے ہیں۔

انتہا پسندی چند یونیورسٹیوں ‘ کالجز ‘ دفاتر ‘ کارخانوں سے بھی جڑی ہوئی ہے ۔ یہ کسی مخصوص جگہ کا نہیں ذہنیت کا نام ہے اسے ختم کرنے کے لئے ٹولز اور تکنیکس استعمال کریں گے کیونکہ اس نے اس ملک کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ دہشتگردوں کو پھانسی کا عمل رکا نہیں ۔ روز روشن کی طرح بیان کر دیتا ہوں کہ یورپی یونین نے وفاق پر بہت دباؤ ڈالا لیکن وزیر اعظم نے بڑے ادب کے ساتھ اپنے موقف سے آگاہ کر دیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں پر دہشتگردوں کی بجائے عام لوگوں کو پھانسیاں دی جاتی ہیں لیکن یورپی یورنین کو اس بات کرنے کی جرات نہیں ہوتی ۔ اگر ہم کسی کی مداخلت نہیں چاہتے تو اسکے لئے ہمیں کشکول کو توڑنا ہوگا ، بھکاری قوم کی اپنی کوئی چوائس نہیں ہوتی ۔ جب ہم محکوم نہیں ہوں گے تو کوئی ہم پر دباؤ نہیں ڈالے گا ۔