سینیٹ قائمہ کمیٹی ریلویز کا پاک چائینہ اقتصادی راہداری کیلئے موجودہ سسٹم کو استعمال کرنے پر تشویش کا اظہار

گوادر میں ریلوے ٹریک بچھانے کیلئے پاک ریلوے کی جانب سے زمین کی خریداری،حکومت بلوچستان کو ادئیگیوں اور ایم ایل - 1 ،فیر- II، ٹریک کے معاملات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ، ڈی جی ٹیکنیکل برائے ریلوے کی قائمہ کمیٹی کو تفصیلی بریفنگ، تمام متعلقہ اداروں گوارد پورٹ اتھارٹی ، بلوچستان ریونیو و دیگر کو آئندہ اجلا س میں بلا کر معاملات کو جلد سے جلد حل کیا جائے ،کمیٹی کی ہدایت

بدھ 25 فروری 2015 18:43

اسلام آباد (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار. 25 فروری 2015ء ) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے ریلویز نے پاک چائینہ اقتصادی راہداری کیلئے موجودہ سسٹم کو استعمال کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ منصوبہ تو نئی سٹرکیں اور ٹریک بچھانے کا تھا موجودہ سسٹم کو استعمال کر کے پنجاب کیلئے دوسرے صوبے میں نفرت پیدا کی جارہی ہے حالانکہ اس منصوبے کیلئے سٹرکیں تو پنجاب کی استعمال ہونگی اور مفت میں بدنامی بھی ہو رہی ہے جس پر سیکرٹر ی ریلوے نے کہا کہ اقتصادی راہداری کے اصل منصوبے کی بھی فیزبیلٹی بھی بن رہی ہے سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ گوادر کو دلبدین سے ملایا جائے کیونکہ یہ علاقے قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال ہیں اور اس سے پاکستان کی ایکسپورٹ میں اضافہ ہوگا، اس منصوبے سے گوادر پورٹ کو زیادہ موثر بنایا جاسکتا ہے روزگار میں اضافہ ہو گا اور مسائل کم ہو جائیں گے ۔

(جاری ہے)

کمیٹی کا اجلا س بدھ کو چیئرمین کمیٹی سینیٹر میر محمدعلی رند کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ۔ اجلا س میں اراکین کمیٹی سینیٹرز احمد حسن ، کامل علی آغا ، مسز نسرین جلیل ، حمزہ ، اور تاج حیدر کے علاوہ سیکرٹری ریلوے ، ایڈیشنل سیکرٹری و دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔اجلاس میں گوادر میں ریلوے ٹریک بچھانے کیلئے پاکستان ریلوے کیطرف سے زمین کی خریداری اور اس حوالے حکومت بلوچستان کو کی گئی ادئیگیوں اور ایم ایل - 1 ،فیر- II، ٹریک کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

ڈی جی ٹیکنیکل برائے ریلوے نے قائمہ کمیٹی کو تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ گوادر کو مستونگ تک ملانے کیلئے ایک نیا ریلوے ٹریک کی فیز بلیٹی 2004 میں کرائی گئی تھی جس کا PC-1 450 ملین روپے کا کنیٹنر یارڈ اور ریلوے ٹریک کی زمین کی خریداری کیلئے سی ڈی ڈبلیو پی نے 2006 میں منظور کر لیا تھا منصوبے کیلئے 373 ایکٹر زمین خریدی گئی جس کی کل لاگت 465 ملین روپے تھی جس میں 450 ملین روپے اد اکر دیئے گئے زیرو پوائنٹ سے اسٹیشن تک کی زمین کی خریداری کیلئے اقدامات کیے جارہے ہیں کچھ زمین ری کلیمنڈ ہے جس کی ادائیگی نہیں کرنا پڑے گی اور کچھ زمین 3.8 کلو میٹر نیوی کے پاس ہے جس نے گوادر پورٹ اتھارٹی کو فراہم کر دی ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جو زمین اسٹیشن کے قریب ہے اُس کی خریداری کی ادائیگی تو مالکان کوکی جارہی ہے مگر بہت سے لوگوں کی شکایات بھی مل رہی ہیں جس پر کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ تمام متعلقہ اداروں گوارد پورٹ اتھارٹی ، بلوچستان ریونیو و دیگر کو آئندہ اجلا س میں بلا کر معاملات کو جلد سے جلد حل کیا جائے ۔

ریلوے حکام نے کمیٹی کو یہ بھی بتایاکہ ماسٹر پلان میں ریلوے ٹریک زیروپوائنٹ سے بھی آگے تک بچھایا جائے گا ۔ML-1 کے حوالے سے ریلوے حکام نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ کراچی ، سکھر ، ملتان ، پنڈی و پشاور کے موجودہ سسٹم کو اپ گریڈ کیا جارہا ہے کراچی سے لاہور تک ٹریک ڈبل کیا جا چکا ہے اور دوسرے فیزمیں لاہور سے پشاور کے ٹریک کو ڈبل کر دیا جائے گا اور اس سلسلے میں موجودہ سسٹم کو جدید سہولیات کی فراہمی کیلئے اقدامات بھی کیے جارہے ہیں اسٹیشن ، ریلوے ٹریک ، سگنل سسٹم کو بھی اپ گریڈ کیا جارہا ہے گوادر کو کامیاب بنانے کیلئے ML-2,ML-3,ML4 کے منصوبے بھی زیر غور ہیں گوادر پورٹ کو موجودہ ریلوے سسٹم سے ملانے کے لئے گوادر سے جیک آباد اور گوادر سے کراچی کیلئے نیا ٹریک بچھانے کے منصوبے پر غور کیا جارہا ہے موجودہ ریلوے سسٹم سے ملک کی 80 فیصد آبادی مستفید ہو رہی ہے جس پر رکن کمیٹی سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ جب تک نئے منصوبے کی فیزیبلٹی رپورٹ بنا کر حکومت کو فراہم نہیں کی جائے تب تک گوادر پورٹ کا منصوبہ کامیاب نہیں ہو سکتا