سپریم کورٹ نے قانون کی کتابوں کی غلط چھپائی اور مقامی زبانوں میں ترجمہ نہ کرنے کے مقدمے میں وفاق سمیت صوبوں کی رپورٹس سختی سے مسترد کردی

حکومتیں لکھ کر دے دیں کہ وہ یہ کام نہیں کرسکتیں تو عدالت وزرائے اعلی کو طلب کرے گی،سپریم کورٹ کا حکم

بدھ 25 فروری 2015 16:46

اسلام آباد(اردپوائنٹ۔تازہ ترین اخبار ۔25 فروری 2015) سپریم کورٹ نے قانون کی کتابوں کی غلط چھپائی اور مقامی زبانوں میں ترجمہ نہ کرنے کے مقدمے میں وفاق سمیت صوبوں کی رپورٹس سختی سے مسترد کردیں اور کہا کہ حکومتیں لکھ کر دے دیں کہ وہ یہ کام نہیں کرسکتیں تو عدالت وزرائے اعلی کو طلب کرے گی۔ یہ حکم جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے بدھ کے روز جاری کیا جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر ہم آئین کی پاسداری نہیں کرسکتے تو کیا اس کو پھینک دیں۔

بتایا جارہا ہے کہ پانچ حکومتیں مل کر بھی اپنے شہریوں کو عام فہم انداز میں قانون کا ترجمہ نہیں دے سکیں۔ اس حوالے سے مزید تاخیر برداشت نہیں کریں گے۔ یہ پاکستانی عوام کیساتھ مذاق ہے۔ سپریم کورٹ کی لائبریری کو چیک کیا ہے کوئی بھی غلطی سے پاک کتاب نہیں مل سکی۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید کہا کہ غلط کتابوں کی اشاعت کا کون ذمہ دار ہے اور اس کیخلاف کیا کارروائی کی گئی ہے۔

غلط کتابیں چھپوائی گئیں جو عدالتوں میں پیش کی جارہی ہیں اس نقصان کا ذمہ دار کون ہے۔ بار کونسل نے اور نہ ہی حکومت نے اس پر کوئی کارروائی کی ہے۔ اس دوران سیکرٹری قانون نے عدالت کو بتایا کہ جون2016ء تک وفاق اور صوبے قوانین کا آسان زبان اور مقامی زبانوں میں ترجمہ مکمل کرلیں گے اور اس کو ویب سائٹ پر ڈال دیا جائے گا۔ اس پر جسٹس جواد یس خواجہ نے کہا کہ تو کیا اتنی دیر تک عوام الناس قانون سے لاعلمی کا شکار رہیں گے۔

اس حوالے سے کس کو ہدایات جاری کریں۔ وفاق اور صوبوں کی رپورٹس تو تسلی بخش نہیں ہیں‘ حکومتیں بتادیں کہ اگر ان سے یہ کام نہیں ہوتا تو پھر ہم وزرائے اعلی کو طلب کریں گے اور ان سے اپنے حکم پر عملدرآمد کروائیں گے۔ یہ عام لوگوں کے فائدے کیلئے ہے۔ جب تک لوگوں کو اپنے حقوق سے متعلق قوانین بارے معلومات نہیں ہوں گی وہ اپنے حقوق کیسے حاصل کریں گے۔

دنیا بھر میں حکومتیں اپنے قوانین کیلئے ماہرین بٹھاتی ہیں کہ وہ ان کی زبانوں میں ترجمہ کریں اور عام لوگوں تک اس کو رسائی دے مگر یہاں یہ حال ہے کہ پاکستان بار کونسل اور پانچوں حکومتوں نے ابھی تک کچھ نہیں کیا ہے۔ میں نے انگریزی سکول میں تعلیم حاصل کی ہے مگر فیصلے اردو میں لکھواتا ہوں تاکہ لوگوں کو پتہ تو چلے کہ ان کے مقدمے کا کیا بنا ہے۔

قانون سے نابلد لوگ ہر جگہ اپنے مقدمے بارے پوچھتے پھرتے ہیں کہ فلاں دن سماعت میں ان کے مقدمے کا کیا بنا۔ بعدازاں عدالت نے سماعت 3 مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ قانون کی کتابوں کا صحیح ترجمہ مقامی زبانوں میں تراجم کیساتھ اشاعت کی حتمی تکمیل کتنے عرصے میں کریں گے اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ 2 مارچ تک عدالت میں پیش کی جائے۔

متعلقہ عنوان :