سپریم کورٹ کی قانون کی کتابوں کی غلطیوں سے پاک معیاری اشاعت‘ مقامی زبانوں میں ترجمہ کرنے‘ ترمیم شدہ قوانین کو ویب سائٹ پر ڈالنے بارے معاملات میں تاخیر پر چیف ایگزیکٹو پاکستان کو آگاہ کرنے کی اٹارنی جنرل کو ہدایت

منگل 24 فروری 2015 15:11

اسلام آباد (اردپوائنٹ۔تازہ ترین اخبار ۔24 فروری 2015) سپریم کورٹ نے قانون کی کتابوں کی غلطیوں سے پاک معیاری اشاعت‘ مقامی زبانوں میں ترجمہ کرنے‘ ترمیم شدہ قوانین کو ویب سائٹ پر ڈالنے بارے معاملات میں تاخیر بارے چیف ایگزیکٹو پاکستان محمد نواز شریف کو آگاہ کرنے کی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے جبکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے درج بالا معاملات کو 24 گھنٹوں میں مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن اور ذمہ دار افسران کی فہرست طلب کی ہے۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم ابھی تک پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہیں کہ جہاں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اپنی کوئی ذمہ داری ہی نہیں اور اب کام عدالتوں نے کرنے ہیں۔ بنگلہ دیش جس کو ہم نے باسکٹ کیس سمجھ کر خود سے گھسیٹ کر الگ کر دیا تھا وہ بھی کہاں سے کہاں ترقی کر چکا ہے ان کے قوانین کا بنگالی زبان اور انگریزی میں ویب سائٹ پر موجود ہے کیا ملک میں سب کچھ ٹھیک ہے کہ حکومت اپنے قوانین سے عام لوگوں کو آگاہی دینے کی ذمہ داری کیوں ادا نہیں کر رہی ہے۔

(جاری ہے)

ہم نے انگریزی میں قوانین سنا کر‘ ہندو برہمن نے سنسکرت میں‘ کلیسائی عدالتوں نے یونانی زبان میں قوانین بنائے تاکہ عام لوگوں کو ان کے حقوق کا پتہ تک نہ چل سکے ہم انگریزوں کو ظالم تو قرار دیتے ہیں مگر انہوں نے 1899ء میں بنائے گئے قوانین کا مقامی زبانوں میں ترجمہ کر کے اس کو 25 پیسے میں فروخت کرنے کا حکم دیا تھا جو وزارت قانون تمام تر ترامیم کا نوٹیفکیشن جاری کرتی ہے خود اس کے پاس بھی قوانین موجود نہیں ہیں جبکہ سیکرٹری قانون سمیت صوبائی سیکرٹریز قانون نے عدالت کو بتایا ہے کہ کتابوں کی اشاعت اور ویب سائٹ پر ڈالنے کا معاملہ 2016ء میں مکمل کر لیا جائے گا۔

قانون کی کتابوں کا غلط ترجمہ اور ویب سائٹس کا حصہ نہ بنانے کے معاملہ کی سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس سرمد جلال عثمانی پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے منگل کے روز شروع کی تو اس دوران اٹارنی جنرل سلمان بٹ‘ ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار‘ وفاقی سیکرٹری قانون محمد رضا خان‘ صوبائی سیکرٹریز قانون عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ اگر کوئی انڈیکس بنائے جائے تو ہمارا نمبر سب سے آخر میں ہو گا۔

یہ آئی ٹی کا کام نہیں ہے اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کے لئے کہہ دیا ہے اس بارے وزارت قانون سے بات ہوئی ہے وزارت قانون نے کہا ہے کہ اس حوالے سے آئیڈیا بھی ہے کہ ان قوانین کو کس طرح سے اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ہم پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہیں جہاں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کوئی ذمہ داری ہی نہیں ہے سب کام عدالت کو کرنا پڑ رہے ہیں سرکار نے تو کچھ نہیں کرنا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے نادرا قوانین سے بھی مدد لینے کا کہا ہے جسٹس جواد نے کہا کہ یہاں مسئلہ کچھ اور ہی لگتا ہے بنگلہ دیش کو ہم نے 1971ء میں گھسیٹ کر الگ کر دیا جس کو باسکٹ کیس سمجھا جاتا ہے وہ ہم سے ترقی میں کافی دور جا چکا ہے آپ کو بنگلہ دیش میں بنگلہ زبان اور انگریزی میں بھی قوانین مل سکتے ہیں۔ وزارت قانون تک کے پاس قوانین موجود نہیں ہیں ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ملک میں سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے اور سرکار نے کچھ نہیں کرتا۔

1967ء کا دن آخری دن ہے جس میں قوانین کے بارے سستے داموں سب کچھ مل سکتا ہے ذمہ داروں بارے تفصیلات بتلائی جائیں۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ باقی ملکوں کے قوانین ملتے ہیں جسٹس جواد نے کہا کہ انگریزوں کو خراب اور ظالم قرار دیا جاتا ہے 1899 میں نیشنل نظام میں قوانین کا مقامی زبانوں میں ترجمہ کر کے 25 پیسے میں فروخت کرنے کا حکم دیا تھا۔

سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے بتایا کہ اس حوالے سے ہم نے طریقہ کار سوچ لیا ہے۔ 2016ء تک معاملات حتمی طور پر مکمل ہو جائیں گے بیک لاگ ختم ہو جائے گا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ڈیڑھ سال ہم بغیر قانون کے رہیں گے۔ اس کی گارنٹی کون دے گا اور اس کی کوالٹی کون دیے گا اس پر انہوں نے بتایا کہ سیکرٹری قانون دیکھے گا۔ جسٹس جواد نے کہا کہ وفاق اور صوبوں کے سیکرٹریز قانون لکھ کر دیں گے کہ فلاں فلاں ذمہ دار ہو گا۔

یہ کر دیں اس کو ہم بدھ کے روز دیکھ لیں گے۔ لاء اینڈ جسٹس کمیشن کی ویب سائٹ پر ترجمہ شدہ قوانین موجود نہیں ہیں اور یہی حال ہماری ویب سائٹ کا ہو گا کسی سرکاری ادارے نے خود سے کوئی کام نہیں کیا۔ فیصل آباد کے مقدمے میں کنٹریکٹ ایکت سے متعلقہ معاملات نہیں مل سکے ہیں اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ اس طرح کام نہ کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی بھی کی جاتی ہے یا نہیں ہم نے اچانک چیک کیا ہے تو کوئی ایک کتاب بھی ہمیں نہیں مل سکی ہے کہ جس میں کوئی نقص نہ ہو ہر صوبہ اور وفاق اس کام کی تکمیل کی ڈیڈ لائن اور ذمہ دار اشخاص کا بتائیں۔

کوالٹی کا بھی بتایا جائے اور اس کی گارنٹی بھی دی جائے اب تک یہ ایسا ملک ہے کہ جس میں سٹیچو بک تک میسر نہیں ہے یہ سب بتایا جائے بصورت دیگر ہم کوئی حکم جاری کریں گے۔ پانچوں لاء افسران کو بھی تفصیلات بتلائی جائیں۔ چیف ایگزیکٹو فیڈریشن کو بھی اس بارے میں بتایا جائے وہ مصروف آدمی ہیں ان کو بھی بتایا جائے روزانہ قانون سے نابلد ہونے کی باتیں کی جا رہی ہیں بار کونسل نے بھی کوئی کام نہیں کیا ہے۔

چیف ایگزیکٹو کو بھی معاملے سے آگاہ کیا جائے لاء اینڈ جسٹس کی ویب سائٹ اپ ڈیٹ نہ ہونے کا ذمہ دار کون ہے کسی کا کوئی کام نہیں ہے بس یہ کام عدالت کا رہ گیا ہے اور وہ کہے جا رہی ہے اٹارنی جنرل کے دفتر میں ممکن ہے کہ آئی ٹی کے ماہرین بیٹھے ہوئے ہوں ان سے کہیں گے کہ وہ ہمیں بتائیں گے پاکستان کے عوام کو کس طرح سے اپنا قانونی مسودہ حاصل کرنے میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں اس حوالے سے دیکھا جائے تو ہم چیمپئن ہیں۔

دہشت گردی کا چرچا بہت ہے اس حوالے سے ایکٹ بھی لوگوں کو معلوم نہیں ہیں اور کسی کو اس تک رسائی نہیں ہے اقتدار میں قوانین کو ہمیشہ چیسٹ میں رکھا جاتا ہے کلیسائی عدالتوں کا قانون یونانی زبان میں ہے تاکہ کسی کو سمجھ ہی نہ آ سکے لوگو ں کو ان کے حقوق کا پتہ ہی نہ چل سکے۔ انہوں نے اپنی مرضی کا سنسکریت کا قانون بنایا۔ فارسی کا قانون لاگو کیا گیا انگریز گئے انگریزی چھوڑ گئے جس کو کوئی نہیں جانتا۔

پڑھے لکھے لوگوں میں سے کئی آج بھی اپنے قوانین کو نہیں جانتے کہ یہ پراگرس ہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ نکل ہی ایا ہے۔ جسٹس سرمد نے کہا کہ یہ سادہ سی بات ہے کہ اس کو سکین کر کے ویب سائٹ پر ڈال دیا جائے جسٹس جواد نے کہا کہ ہمیں 24 گھنٹوں میں پانچوں حکومتیں بتائیں کہ یہ سب کون کرے گا اور یہ کب تک مکمل ہو گا مانیٹرنگ‘ کوالٹی بارے بتایا جائے۔

پروف ریڈنگ تک کی غلطیاں ہیں ہر اشاعتی ادارے میں پروف ریڈرز ہوتے ہیں اخبارات میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ سیکرٹری قانون نے بتایا کہ پی ڈی ایف فائل کا دیٹا سرچ ایبل نہیں ہوتا۔ اس کو تکنیکی بنیادوں پر حل کرنا ہو گا۔ عدالت نے کہا کہ لاء منسٹر ہمیں یہ سب ترامیم موجود ہیں یا نہیں۔ وزارت قانون کی جانب سے بتایا گیا کہ ایک ٹیم مقرر کر دی ہے جسٹس جواد نے کہا کہ آپ ہمیں لیکچر دینے کی بجائے بتائیں کہ عملی طور پر کیا کام کیا گیا ہے۔

خاتون افسر نے بتایا کہ صوبوں کے اپنے محکمہ جات ہیں وہ اپنا کام کر رہے ہیں سب صوبوں کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ ترمیم شدہ قوانین کی اشاعت کو یقینی بنائیں۔ خاتون افسر نے بتایا کہ قوانین لاء منسٹری کے پاس موجود ہیں جسٹس جواد نے کہا کہ آپ اپنے قواعد و ضوابط دیکھ لیں کہ آپ نے کیا کرنا ہے۔ قواعد و ضوابط کے بغیر وزارت قانون کوئی نوتیفکیشن جاری نہیں کر سکتے ذمہ داروں کا بتایا جائے کہ اس کو کیسے کیا جائے گا۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج بدھ تک کے لئے ملتوی کر دی۔