ملک میں سازش کے تحت زبان کو جواز بنا کر قومی سیاست، معیشت اورمعاشرت کو تقسیم کیا گیا ہے ، ڈاکٹرفاروق ستار،

مہاجروں کو لسانی بنا کر پیش کیا جاتا ہے لیکن در حقیقت مہاجر وں میں 12مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں، سید حیدر عباس رضوی، پاکستان میں اُردو کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے ،جن قوموں کی زبان بگڑتی ہے دنیا سے انکی شناخت ختم ہوجاتی ہے، حسینہ معین، مادری زبان کے عالمی دن کے موقع پر ایم کیو ایم کے زیر اہتمام عزیز آباد میں منعقدہ تقریب سے مقررین کا خطاب

ہفتہ 21 فروری 2015 23:35

کراچی(اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار. 21 فروری 2015ء) متحد ہ قومی موومنٹ کے زیراہتمام مادری زبان کے عالمی دن کے موقع پر ” ہم اپنی زبان اردو اور اپنی ثقافت پر فخرکرتے ہیں“ کے موضوع سے تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں جناب الطاف حسین کی ہمشیرہ محترمہ سائرہ خاتون، ا یم کیوایم رابطہ کمیٹی کے جوائنٹ انچارج عامر خان ،اراکین رابطہ کمیٹی ڈاکٹر محمد فاروق ستار،سید حیدر عباس رضوی، قمر منصور، عارف خان ایڈوکیٹ،معروف شاعرہ محترمہ فہمیدہ ریاض، معروف ڈرامہ نگار حسینہ معین ،نصرت علی ، شہرت کی حامل شاعرہ وانجمن ترقی اردو کی معتمد محترمہ فاطمہ حسن ، معروف کمپےئر سلمان صدیقی ، فراست رضوی ،عظیم راہی ، حق پرست عوامی نمائندوں،اُردو ادب کے معروف ادیبوں ، دانشوروں ، قلمکاروں ، شعراء کرام اور شعر وادب سے رغبت رکھنے والے خواتین و حضرات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر محمد فاروق ستار نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہ زبانوں کی ترقی و ترویج سے معاشرے اور ملک کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایم کیوا یم کا زبانوں پر کسی سے جھگڑا نہیں ، ہمارے لئے ملک کی دیگر جماعتیں بھی اتنی ہی اہم اور معتبر ہیں جتنا اُردو زبان ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں سازش کے تحت زبان کی بنیاد پر بنگالی عوام کو کمتر سمجھا اورملک کو دولخت کروادیاجبکہ آج بھی زبان کو جواز بنا کر عوام کے احساس محرومی کو احساس بیگانگی میں تبدیل کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہاکہ اگر ہم زبان کے استحصال کو بروقت روک لیتے تو آج مذہبی استحصال کا عفریت ملک کی قومی زندگی پر اثر انداز نہیں ہوسکتا تھا۔انہوں نے کہا کہ دنیا کے مختلف ممالک بشمول بنگلہ دیش میں مذہب کے نام پر سیاست کرنے پر پابندی ہے لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے، ملک کی بقاء و سلامتی کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں زبان کے نام پر ہونیوالے استحصال کو بند کروایا جائے اور ملک میں سیاست اور لسانیت کی اونچ نیچ کو ختم کیا جائے ۔

انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ او ر پیپلز پارٹی کے شریک چےئر مین آصف علی زرداری سے کہا کہ اگر ہم صوبے میں استحکام چاہتے ہیں تو ہمیں ایک دوسرے کی ضروریات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔سید حیدر عباس رضوی نے کہا کہ ہمارے ملک میں کہا جاتا ہے کہ اُردو زبان کو خطر ہ ہے لیکن دنیا میں رابطے کی دوسری بڑی زبان کو کوئی خطر ہ نہیں ہے کیونکہ اُردو زبان ہندوستا ن ، پاکستان ، افغانستان ، عرب امارات ، افریقہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں بولی جارہی ہے اور تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں اُردو زبان کو تیسری قومی زبان کا درجہ دیا گیا ہے جبکہ ہم نے اُردو زبان کو مذہب و ثقافت کی بنیاد پر تقسیم کردیا ہے لیکن اُردو نے تسلیم کروایا ہے کہ یہ محدود زبان نہیں بلکہ تقریبا ً تمام دنیا میں بولی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہاجر قومیت کو لسانی بنا کر دنیا کہ سامنے پیش کیا جارہا ہے لیکن در حقیقت مہاجرایک لسانی قومیت نہیں ہے بلکہ مہاجر قومیت میں 12مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔

حسینہ معین نے کہا کہ اُردو ہماری قومی زبان ہے اور قائد اعظم محمد علی جناح  نے اپنی دو تقاریر میں اُردو کو قومی زبان بنانے کا واضح اعلان کیا تھالیکن آج ہمارے ملک میں اُردو کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے اور جن قوموں کی زبان بگڑتی ہے دنیا سے انکی شناخت ختم ہوجاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں ایسی جمہوریت نافذ العمل ہے جس میں اپنے حق کیلئے بھی زبان کھولنے کی ممانعت ہے اور ہم نے زبان کے ساتھ ساتھ تعلیم کو بھی مختلف معیارات میں تقسیم کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری زبان کی تباہی کی وجہ ملک کے اعلیٰ ایوانوں، نیوز چینلز، ٹی وی ڈراموں اور تعلیمی اداروں میں اُردو زبان کو غلط طریقے سے بولا جانا ہے جبکہ ہمارے ملک میں ٹیلیویژن پروگرامز میں بولی جانے والے غیر مہذب الفاظ بھی اُردو کی تنزلی کا سبب بن رہے ہیں۔ نصرت علی نے کہا کہ اُردو محبت ، شائستگی، ملاپ اور ایک دوسرے سے تعلق کی صرف ایک زبان نہیں بلکہ ایک ثقافت اور تہذیب کا نام ہے اوراس زبان نے بڑے بڑے اُردو دان، شعراء کرام ، ادیب اور دانشور پیدا کئے ہیں۔

انہوں نے اُردو زبان کی قدیم ارتقائی تاریخ سے شرکاء تقریب کو آگاہ کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے ملک میں اُردو کے فروغ کیلئے معیاری تعلیمی ادارے قائم کرنے ہوں گے۔ معروف شاعرہ فہمیدہ ریاض نے کہا کہ اُردو تہذیب و تمدن کا وہ سرچشمہ ہے جس کی سرحدیں نہیں ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اُردو زبان نے تحریک پاکستان کے پرچار میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا لیکن آج ہم نے اس باوقار و اعلیٰ زبان کو جنگ و جدل کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عہد حاضر کی ضرورت ہے کہ اُردو کے فروغ اور اس کی ترقی کیلئے سنجیدہ بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں اور اپنی آئندہ نسلوں کیلئے اپنی زبان اور تہذیب کو خراب ہونے سے بچانے کیلئے ملک میں اردو کے تحفظ کیلئے ادارے قائم کئے جائیں۔ فاطمہ حسن نے کہا کہ اُردو دنیا کی دوسری بڑی زبان ہے جواسی طرح ہماری ثقافت کا مظہر ہے جیسے دنیا بھر میں بولی جانے والی زبانیں وہاں کے رہنے والوں کی ثقافت کا مظہر ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں اُردو کو تباہ کرنے اور نئی نسل کو اُردو زبان سے دور کرنے کیلئے سازشیں کی جارہی ہیں لہٰذا ہمارے ملک میں نئی نسل کو مکمل زبان سیکھنے اور زبان کے طرز تخاطب کو خراب کرنے کی کوششوں سے آگاہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔سلمان صدیقی نے کہا کہ اُردو ہماری قومی زبان ہے لیکن ہم اپنی قومی زبان کو اسکا مطلوبہ مقام نہیں دے رہے اور اسے حقیقی معنوں میں قومی زبان تسلیم نہیں کرنا چاہتے۔

انہوں نے کہا کہ ہر زبان کی ایک تہذیب و ثقافت ہے اور اس تہذیب کو اپنانے میں پوری دنیا فخر محسوس کرتی ہے۔ قبل ازیں تقریب میں خطبہٴ استقبالیہ میں ایم کیوایم کے سینئر رہنماو متحدہ سوشل فورم کے جوائنٹ انچارج احمد سلیم صدیقی نے اردو ادب سے تعلق رکھنے والے ادبیوں اور شعراء کرام کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ اردو زبان ایک عالمی سطح کی زبان ہے جس کے خلاف سوچی سمجھی سازشیں کرکے اسے نقصان پہنچانے کی کوششیں کی گئیں لیکن ہر دور میں اردو کے تحفظ کیلئے مایہ ناز لوگوں نے اپناکردار ادا کیاہے۔

انہوں نے کہا کہ اُردو کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور ہر دور میں اردو کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگا۔اس موقع پرحق پرست رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ نے تقریب میں آمد پر معززین شعر و ادب کا شکریہ ادا کیاجبکہ تقریب میں خالدہ اطیب اور سیدہ عظمیٰ پاشہ نے نظامت کے فرائض عمدہ انداز میں سر انجام دئیے۔دریں اثناء ایم کیوا یم رابطہ کمیٹی کے جوائنٹ انچارج عامر خان اور اراکین رابطہ کمیٹی نے مہمانان گرامی کو گلدستے پیش کئے اور جناب الطاف حسین کی جانب سے انکا استقبال کیا۔اس موقع پر ایم کیوا یم کے شعبہ خواتین کی مرکزی رکن نسیم محمد علی،ایم کیو ایم قلیتی امور کمیٹی کی رکن منگلا شرمااور معروف شاعر عظیم راہی نے بھی اظہار خیال کیا۔