نیشنل پلان کی کامیابی کیلئے افغانستان اور پاکستان کے درمیان بے اعتمادی کو ختم کرناہوگا،سینیٹر فرحت اللہ بابر،

قبائلی علاقوں کے عوام کو بے اختیار بنانے اور وہاں اصلاحات کرنے ہی سے مسائل حل ہو سکتے ہیں ،سیمینار سے خطاب

بدھ 18 فروری 2015 23:14

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔18فروری۔2015ء) پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی بے اعتمادی کو ختم کیا جائے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ پرخلوص اور بامعنی تعاون کریں اور ہماری #سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو اس سلسلے میں ابھی بہت کام کرنا ہے کیونکہ اب تک جو کوششیں کی گئی ہیں وہ کافی نہیں۔

نیشنل ایکشن پلان کے موضوع پر اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں منعقد کئے جانے والے ایک سیمینار میں انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان نے افغانی صدر اشرف غنی کی جانب سے دئیے گئے تین واضح سگنلز پر مناسب کام نہیں کیا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان فاصلوں کو کم کیا جا سکے۔

(جاری ہے)

جو تین سنگلز افغان صدر نے دئیے تھے وہ یہ تھے کہ (1) بھارت کی جانب سے افغانستان کو اسلحہ دینے کی پیشکش کو مسترد کرنا (2) افغان کیڈٹوں کو تربیت کے لئے پی ایم اے کاکول بھیجنا اور (3) افغانستان میں ایک مخصوص معاشی زون قائم کرنا جس میں صرف پاکستانی تاجر ہی تجارت کر سکیں۔

یہ تینون اعتماد سازی کے وہ بڑے اقدامات تھے جو افغانستان نے اٹھائے اور جن کا جواب پاکستان کو مثبت طور پر دینا چاہیے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ کئی دہائیوں کی بے اعتمادی کو ختم کیا جائے اور نیشنل ایکشن پلان کو کامیاب کیا جائے تو یہ تمام اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم اس میں ناکام ہوگئے تو ہم افغانی صدر اشرف غنی کو ان کے اپنے ہی ملک میں سیاسی طور پر تنہا کر دینے کا باعث ہو سکتے ہیں جس سے افغانستان میں نئی خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔

جس سے پاکستان پر بہت مضر اثرات ہوں گے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں چاہیے کہ ہم کالعدم عسکری تنظیموں کو نئے ناموں سے دوبارہ امدادی تنظیموں کے نام پر ابھرنے کی اجازت نہ دیں اور اس سلسلے میں بہت سارے سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ قبائلی علاقوں کے عوام کو بے اختیار بنانے اور وہاں اصلاحات کرنے ہی سے مسائل حل ہو سکتے ہیں لیکن اب تک ایسا نہیں ہوا اورقبائلی علاقوں سے عسکریت پسندی کا صفایا نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا میں سیاسی اصلاحات کے ذریعے ہی حالات معمول پر لائے جا سکتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :