حکومتی اتحادی و اپوزیشن جماعتیں پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کے روٹ میں ممکنہ تبدیلی کیخلاف متحد ہو گئیں

حکومت بدلتے ہی روٹ بدل جاتے ہیں‘نواز شریف ایک بحران سے نکل کر دوسرا بحران تلاش کرتے ہیں‘ نہ ملے تو خود پیدا کرتے ہیں ‘قتصادی روٹ تبدیل ہوا تو نئے روٹ کو کالا باغ ڈیم جیسا ایشو بنا دیں گے ‘راہداری سے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں آنے والی خوشحالی کا اثر پورے پاکستان پر پڑیگا‘ چین ہمارے اوپر احسان نہیں کر رہا اپنی ضروریات کیلئے منصوبے کو مکمل کرنا چاہتا ہے،مجوزہ اقتصادی کوریڈور صرف سڑک نہیں اس میں ریلوے لائن‘ تیل گیس پائپ لائن، فائبر آپٹک کیبل‘ انرجی پراجیکٹس اور اقتصادی پارک شامل ہونگے عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام اقتصادی روٹ میں تبدیلی کیخلاف کل جماعتی کانفرنس ‘ حکومتی اتحادی ‘ اپوزیشن جماعتوں کی شرکت ، روٹ میں ممکنہ تبدیلی کیخلاف راست اقدام اٹھایا جائے گا، پہلے مرحلے میں پارلیمانی کاکس تشکیل‘کانفرنس میں اعلان

منگل 17 فروری 2015 21:31

حکومتی اتحادی و اپوزیشن جماعتیں پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کے روٹ میں ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 17فروری 2015ء) حکومتی اتحادی و اپوزیشن جماعتیں پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کے روٹ میں ممکنہ تبدیلی کے خلاف متحد ہو گئیں، حکومت بدلتے ہی روٹ بھی بدل جاتے ہیں،نواز شریف ایک بحران سے نکل کر دوسرا بحران تلاش کرتے ہیں، نہ ملے تو خود پیدا کر دیتے ہیں،قتصادی روٹ تبدیل ہوتا ہے تو نئے روٹ کو کالا باغ ڈیم بنائیں گے،بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں ایسی خوشحالی آ سکتی ہے جس کا اثر پورے پاکستان پر پڑے گا، چین ہمارے اوپر احسان نہیں بلکہ اپنی ضروریات کیلئے اس منصوبے کو مکمل کرنا چاہتا ہے،موجوزہ اقتصادی کوریڈور صرف ایک بڑی سڑک کا نام نہیں ہے ، اس میں ریلوے لائن، تیل اور گیس کے پائپ لائن، فائبر آپٹک کیبل، انرجی پراجیکٹس اور اقتصادی پارک بھی شامل ہیں۔

(جاری ہے)

مشترکہ اعلامیہ میں چینی صدر کے دورہ پاکستان کے خیر مقدم اور خوشی کا اظہار کیا گیا،روٹ میں ممکنہ تبدیلی کے خلاف راست اقدام اٹھایا جائے گا، پہلے مرحلے میں پارلیمانی کاکس تشکیل۔منگل کو عوامی نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کے حوالے سے ہونے والی اے پی سی کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اے پی سی کے شرکاء پاکستان کے عظیم ہمسایہ دوست چین کے ساتھ اقتصادی تعاون میں اضافے پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں، بالخصوص ہم پاکستان ، چین اقتصادی کوریڈور کا خیر مقدم کرتے ہیں جو خطے میں اقتصادی تعاون بڑھانے میں ایک سنہری باب ثابت ہو گا،ہم اس میگا پراجیکٹ کی مستعدی کے ساتھ بروقت تکمیل کی مکمل حمایت کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک ایسے خطے میں علاقائی تعاون بڑھانے میں ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے جو دنیا کے دوسرے خطوں کی نسبت علاقائی تعاون میں نسبتاً پسماندہ ہے۔

ہمیں اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ پلاننگ کمیشن آف پاکستان نے ابتدائی طور پر کم فاصلے اور کم اخراجات والے روٹ کا انتخاب کیا تھا جو خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع سے گزر کر بلوچستان میں داخل ہوتا ہے اور کوئٹہ سے گزرتے ہوئے گوادر پہنچتا ہے لیکن حالیہ دنوں میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت نے اپنے خیالات میں تبدیلی کی ہے، نئی دلیل یہ سامنے آئی ہے کہ چونکہ پرانے روٹ کی تعمیر پر بہت وقت لگے گا، اس لئے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ سڑکوں کے پہلے سے موجود نظام کے اندر کچھ خالی جگہوں کو پر کرنے کے بعد فی الحال انہی کو گوادر تک رسائی کیلئے استعمال کیا جائے، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، موجوزہ اقتصادی کوریڈور صرف ایک بڑی سڑک کا نام نہیں ہے ، اس میں ریلوے لائن، تیل اور گیس کے پائپ لائن، فائبر آپٹک کیبل، انرجی پراجیکٹس اور اقتصادی پارک بھی شامل ہیں۔

ظاہر ہے کہ اتنے بڑے انفراسٹرکچر اور پراجیکٹ کی عتمیر دوبارہ نہیں ہو سکتی، ہم یہ بات کھل کر کہنا چاہتے ہیں کہ ہم اضافی سڑکوں اور لنک روڈز کی تعمیر کے ہر گز خلاف نہیں ہیں، لیکن ایسا پرانے بنیادی روٹ کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ یہ بہت پسماندہ علاقہ ہے اور اسے دہشت گردی سے بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے، جس کی تلافی اقتصادی کوریڈور کی تعمیر سے کی جا سکتی ہے اور جس سے انتہاء پسندی اور دہشت گردی کو شکست دی جا سکتی ہے۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ پلاننگ کمیشن آف پاکستان نے جو پہلے روٹ چنا تھا اس کی تعمیر فوری طور پر اور جنگی بنیادوں پر شروع کی جائے اور باقی سڑکوں اور لنک روڈز کی تعمیر بعد میں کی جائے، اگر وفاقی حکومت پرانے روٹ کے بارے میں اپنے وعدے سے پیچھے ہٹتی ہے تو اس سے فاٹا، خیبرپختونخوا، اور بلوچستان میں گہرا احساس محرومی اور احساس منافرت پیدا ہو گا، ہم اس سلسلے میں مرکزی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اقتصادی کوریڈور کے روٹ کے بارے میں ہر قسم کے ابہام کو دور کر کے واضح پالیسی اختیار کرے اور عوام کو کہانیاں سنانا بند کر دے۔

ہم مزید سڑکیں بنانے کے خلاف نہیں ہیں لیکن یہ کام بعد میں ہونا چاہیے اور سڑکوں میں مالاکنڈ ڈویژن کے این 45 کو متباد ل راستے کے طور پر تعمیر کیا جا سکتا ہے جو چکدرہ اور لواری ٹنل سے ہو کر چترال پہنچتا ہے چونکہ گوادر کی بندرگاہ بلوچستان میں ہے اس لئے گوادر اور بلوچستان کے عوام کی رائے کو اہمیت دی جائے، اس منصوبے میں بلوچ عوام کا نظر انداز کیا جانا بالکل ایسے ہے جیسے شیکسپیئر کے ڈرامے ہملٹ کو شہزادہ ڈنمارک کے بغیر کھیلا جائے۔

اعلامیہ میں کہا گیاکہ اے پی سی چینی صدر کے دورہ پاکستان کا خیر مقدم اور خوشی کا اظہار کرتی ہے،چین پاکستان کا دیرینہ دوست ملک ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ اے پی سی نے فیصلہ کیا ہے کہ پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کے اصل روٹ میں تبدیلی کے خلاف ہر راست اقدام اٹھایا جائے گا، پہلے مرحلے پر پارلیمانی کاکس بنائی جائے گی۔ قبل ازیں اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی خان نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف ایک بحران سے نکل کر دوسرا بحران تلاش کرتے ہیں، نہ ملے تو خود پیدا کر دیتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہمیں اس منصوبے کی بریفنگ دی گئی تو یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا سن رہا ہوں کہ مرکزی حکومت فاٹا ،بلوچستان اور خیبرپختونخوا کیلئے ایسا منصوبہ لے کر آئی ہے،بدقسمتی سے حکومت بدلی اور حکومت بدلتے ہی روٹ بھی بدل گیا۔ انہوں نے کہا کہ نقشے ہم نے تقسیم کر دیئے ہیں سب دیکھ لیں، لاہور ، اسلام آباد موٹروے پر لِلہ اکنامک زون بن گیا ہے، اب کوئی اسے اٹھا کر ڈیرہ غازی خان کیسے لے جا سکتا ہے،صرف پنجاب پاکستان اور پاکستان پنجاب نہیں ہے، اگر اس کو سنجیدہ سے نہ لیا گیا تو نتائج خطرناک ہوں گے، میں کسی صورت غلام کے طور پر نہیں رہ سکتا، اقتصادی روٹ تبدیل ہوتا ہے تو نئے روٹ کو کالا باغ ڈیم بنائیں گے، وزیر اعظم آبپارہ کے بجائے ژوب اور میرانشاہ میں قیمتیں جا کر پوچھتے تو انہیں پتا چلتا، پاکستان کو مضبوط کرنا ہے تو صوبوں کو مضبوط کرو، مرکز کو مضبوط کرنے کا تجربہ مشرقی پاکستان کی صورت میں بھگت چکے۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کوئی جماعت اس منصوبے کے مخالف نہیں، مخالفت روٹ کی تبدیلی پر شروع ہوئی۔ نیشنل پارٹی بلوچستان کے سربراہ میر حاصل بزنجو نے کہا ہے کہ وفاق اس روٹ کو ڈراپ کر کے گوادر،کاشغر روڈ کو اتنا متنازعہ نہ بنائے کہ یہ دوسرا کالا باغ ایشو بن جائے،اس سے بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں ایسی خوشحالی آ سکتی ہے جس کا اثر پورے پاکستان پر پڑے گا، چین ہمارے اوپر احسان نہیں بلکہ اپنی ضروریات کیلئے اس منصوبے کو مکمل کرنا چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چینی صوبے سنکیانگ کا رقبہ چائنہ کا 13فیصد اور بلوچستان پاکستان کا 40 فیصد ہے باقی حکمران خود سمجھدار ہیں۔حکمران اتحادی جماعت کے مولانا عبدالرحمان نے کہا کہ گوادر سے کاشغر تک ایک ہی روٹ نہیں ہے حکومت کی غلطی ہے کہ ابھی تک وضاحت نہیں کی، گزشتہ سال خیبرپختونخوا میں 85 ارب کا بجٹ لیپس ہوا،یہ صوبے کی کیسی خدمت کی جا رہی ہے۔

قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ نے کہا ہے کہ پنجاب کے بل بوتے پر ایک پارٹی مرکز اور پنجاب میں حکومتیں بنا دیتی ہے، اسے دوسرے صوبوں کی کیا ضرورت ہے، صوبوں کو وسائل پر اختیار اٹھارہویں ترمیم سے ملا، یہ بھی آصف زرداری کی فراخدلی سے ممکن ہوا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رؤف مینگل نے کہا کہ ہمیں نہ پہلے کبھی فیصلے میں شریک کیا گیا اور نہ ہی اب توقع ہے، اب بھی ہم مسخ شدہ لاشیں اٹھا رہے ہیں مگر ہمیں کوئی گلہ بھی نہیں، گلہ اپنوں سے کیا جاتا ہے،سینڈک جہاں سے سونا نکل رہا ہے وہاں بچوں کے پاؤں میں چپل تک نہیں ہے، ہم ترقی پسند سوچ کے مالک ہیں، میگا پراجیکٹ کے تحت ہمیں کالونی بنائیں گے تو مزاحمت نہ کر سکے تو جان دے سکتے ہیں۔

اس موقع پر ، جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر انجینئر طارق اللہ،بی این پی عوامی کی نسیمہ احسان شاہ ،پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رحیم داد، عوامی ورکر پارٹی کے فانوس گجر سمیت دیگر نے خطاب کیا جبکہ اے پی سی میں پیپلز پارٹی، اے این پی، جماعت اسلامی سمیت دیگر پارلیمانی جماعتوں کے پارلیمنٹیرینز،سول سوسائٹی کے مندوبین نے بھی شرکت کی۔