تربیتی ورکشاپ برائے بندوبست آب بذریعہ مصنوعی سیارہ استعمال

پیر 16 فروری 2015 23:34

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 16فروری 2015ء ) پاکستان کونسل برائے تحقیقاتِ آبی وسائل نے ICMOD کے باہمی تعاون و اشتراک سے 16 تا 20 فروری 2015 کوایک تربیتی ورکشاپ کا اہتمام کیا۔ جس کے افتتاح کے موقع پر مہمان خصوصی کامران علی قریشی ، وفاقی سیکریٹری برائے سائنس و ٹیکنالوجی نے اس امر پر زور دیا کہ محض فزیکل ماڈل ہائیڈرولوجی اور موسمیات کی بنیاد پر اور بغیر Numerical Simulation کے تازہ پانی کی دستیابی کا اندازہ لگانا اب مشکل اور محدود ہوتا جارہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سیارچی آنکھ ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جو مسلسل نظر رکھ سکتا ہے کہ کس طرح تازہ پانی کے ذخائر انسان اور فطری عوا مل کے زیر اثر تبدیل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے اجاگر کیا کہ HKH کے ریجن بشمول پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی، محدود آبی وسائل، سیلاب، خشک سالی، زیرِ زمین پانی کا گہرا ہوتے جانا، تبدیلی آب و ہوا اور موسم جیسے گھمبیر مسائل سے نبرد آزما ہونے کیلئے کس طرح سیارچی طریقہ کار کا جلد از جلد استعمال نہایت ضروری ہو چکا ہے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر محمد اشرف، چئیرمین پی سی آر ڈبلیو آر نے اپنے تعارفی خطاب میں مطلع کیا کہ کونسل ھذا میں منعقدہ تربیتی ورکشاپ نے پاکستانی پیشہ ور سائنسدانوں کو یہ موقع مہیا کیا ہے کہ آبی وسائل کے بندوبست میں کس طرح سیارچی ٹیکنالوجی کا موجودہ اور مستقبل کا نظام وسیع تر تناظر میں استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ یونیورسٹی آف واشنگٹن سے آئے ہوئے ڈاکٹر فیصل حسین جو کہ لیڈ ٹرینر کا کردار ادا کر رہے ہیں انہوں نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ پانی کا استعمال قومی ترقی میں مرکزی حیثیت اختیار کرتا جارہا ہے۔

وہ اس لیے کہ بہت سارے دوسرے وسائل کا انحصار پانی پر ہے جیسا کہ زیادہ خوراک اُگانے، توانائی کی زیادہ پیداوار اور ہمیں سیلاب اور خشک سالی سے بچاؤ شامل ہے۔ اور ان سب چیزوں کے نتیجے میں انتھرو پوسین Anthropocene کا آغاز ہوا جس کا مطلب ہے کہ پانی کے وسائل کو طبعی قوانین کے مطابق قدرت پر چھوڑنے کی بجائے انسان نے اس کے وسائل کو خود سے ترتیب دینا شروع کردیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اس کام میں سیٹلائٹ ڈیٹا کے ذریعے مہیا شدہ پانی کو ارزاں طریقے سے ناپا جاسکتا ہے۔ کیونکہ سیٹلائٹ معلومات آسانی سے دستیاب ہیں اس لیے اس کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ہمارے بہتر فیصلے اور منصوبہ بندی ہماری زندگی کے معیار کو بہتر بنا سکتی ہے۔