سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کسی دہشت گرد کو بھی خلاف قانون قتل نہیں کیا جاسکتا، آئین کے تحت زندہ رہنے کا حق حاصل ہے،

پرویزمشرف کے حکم پر سول انتظامیہ سے علاقے کا کنٹرول حاصل کرکے فورسز کی جانب سے لال مسجد آپریشن کیاگیا، عبدالرشید غازی کیس میں مدعی کے وکیل کے دلائل

ہفتہ 14 فروری 2015 23:23

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔14فروری 2015ء) علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس کے مدعی صاحبزادہ ہارون الرشید غازی کے وکیل طارق اسد نے لال مسجد آپریشن کو خلاف آئین و قانون قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پرویزمشرف کے حکم پر سول انتظامیہ سے علاقے کا کنٹرول حاصل کرکے فورسز کی جانب سے لال مسجد آپریشن کیاگیا۔ 1998میں لیاقت حسین کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کسی دہشت گرد کو بھی خلاف قانون قتل نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ آئین کے آرٹیکل 9کے تحت اسے بھی زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔

تفصیلات کے مطابق لال مسجد کے نائب خطیب علامہ عبدالرشید غازی اور ان کی والدہ صاحب خاتون کے مقدمہ قتل کی سماعت ہفتے کواسلام آباد کی مقامی عدالت میں ہوئی۔ایڈیشنل اینڈ سیشن جج واجد علی خان نے پرویزمشرف کیخلاف مقدمے کی سماعت کی۔

(جاری ہے)

پرویزمشرف کی طرف سے اختر شاہ جبکہ مدعی مقدمہ ہارون الرشید غازی کی طرف سے طارق اسد اور ملک عبدالحق ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔

مدعی مقدمہ کے وکلا نے پرویزمشرف کی جانب سے دائر درخواستوں پر دلائل مکمل کرلئے ہیں۔ ہارون الرشید غازی کے وکیل طارق اسد نے پرویزمشرف کی جانب سے دائر تین درخواستوں کے خلاف دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اب ملک میں ملٹری کورٹس بن چکی ہیں اس لئے لوگ اب آرمی کے متعلق بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔سپریم کورٹ کے 9رکنی بینچ نے 1998میں لیاقت حسین کیس میں اپنے 400صفحات پر مشتمل فیصلے میںآ ئین کے آرٹیکل 245کی تشریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج کو صرف بیرونی جارحیت یا امن و امان کو کنٹرول کرنے کیلئے سول انتظامیہ کی درخواست پر سول انتظامیہ کی مدد کیلئے طلب کیا جاسکتا ہے،بیرونی جارحیت کی صورت میں فوج کسی بھی قسم کی کاروائی کرنے میں مکمل طور پر بااختیار ہوگی جبکہ ملک میں امن و امان کو کنٹرول کرنے کیلئے جب سول انتظامیہ کی درخواست پر فوج کو طلب کیا جائے تو اس وقت فوج سول انتظامیہ کے ماتحت رہ کر اپنی ذمہ داری ادا کریگی۔

لال مسجد کے خلاف فوجی آپریشن 1998میں لیاقت حسین کیس میں سپریم کورٹ کے نوں رکنی بینچ کی جانب سے دیئے گئے فیصلے کی روشنی میں خلاف آئین و قانون تھا۔چیف کمشنر اور ڈپٹی کمشنر سمیت کسی بھی سول انتظامیہ کے افسر نے فوج سے لال مسجد آپریشن کرنے کی استدعا نہیں کی تھی۔پرویزمشرف کے حکم پرسول انتظامیہ سے علاقے کا کنٹرول حاصل کرکے فورسز کی جانب سے لال مسجد و جامعہ حفصہ میں آپریشن کیاگیا ۔

پرویزمشرف نے دوران آپریشن لال مسجد والوں کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ سرنڈر کرو ورنہ مارے جاؤ گے۔بعدازاں کئی ٹی وی چینلز پر بھی پرویزمشرف نے اعتراف کیا کہ لال مسجد آپریشن کا فیصلہ میں نے ملکی مفاد میں کیا تھا اور مجھے اپنے فیصلے پر کوئی شرمندگی نہیں۔آئین کے آرٹیکل 245کے تحت آرمی کو لال مسجد آپریشن کا اختیار حاصل نہیں تھا۔طارق اسد ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے لیاقت حسین کیس کے فیصلے میں کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 245کے تحت جب فوج سول انتظامیہ کی مدد کیلئے طلب کی جائے تو فوج قانون کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتی یہاں تک کہ اگر کوئی مسلح دہشت گرد خلاف قانون کسی دوسرے شہری کو قتل کرنے کے درپے ہو تو اس صورت میں بھی فوج کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اس مسلح دہشت گرد کو خلاف قانون قتل کرے،اس لئے کہ آئین کے آرٹیکل 9کے تحت اس دہشت گرد کو بھی زندہ رہنے کا حق حاصل ہے اور یہ حق اس سے خلاف قانون نہیں لیا جاسکتا۔

طارق اسد نے عدالت میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ بتایا جائے کہ پرویزمشرف کے حکم پر کس اختیار و قانون کے تحت لال مسجد و جامعہ حفصہ میں بیگناہ طلبہ و طالبات کو بے دردی سے شہید کیاگیا۔اس پر ملزم پرویزمشرف کے وکیل اختر شاہ نے عدالت سے استدعا کی کہ طارق اسد کے دلائل کا جوڈیشل نوٹس لیا جائے۔ملزم کے وکیل کی جانب سے اس استدعا کے بعد فریقین کے وکلاء میں شدید تلخ کلامی ہوئی اور طارق اسد نے اخترشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ کے فیصلے کی روشنی میں دلائل دے رہا ہوں،کیا آپ سپریم کورٹ سے اوپر ہیں۔

اس پر ایڈیشنل اینڈ سیشن جج واجد علی نے ریماکس دیئے کہ اگر آپ نے آپس میں الجھنا ہے تو عدالت سے باہر چلے جائیں۔ مدعی مقدمہ ہارون الرشید غازی کے ایک اور وکیل ملک عبدالحق نے اپنے دلائل میں کہا کہ پرویزمشرف کی جانب سے دائر تینوں درخواستیں خلاف قانون ہے۔پرویزمشرف غیرضروری درخواستیں دائر کرکے ٹرائل سے بچنا چاہتے ہیں۔عدالت علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس میں 22مئی 2014کو اپنے ایک فیصلے میں قرا دے چکی ہے کہ پولیس چالان کو قبول کرنا عدالت پر لازم نہیں،پولیس اگر کسی ملزم کو چالان میں خانہ نمبر دو میں بھی رکھ دے تو بھی عدالت اسے طلب کرکے اس پر فرد جرم عائد کرسکتی ہے۔

لہٰذا عدالت اپنے سابق فیصلوں کی روشنی میں پرویزمشرف کی تینوں درخواستیں مسترد کردے۔مدعی مقدمہ کے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے اپنا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے پرویزمشرف کی عدالت میں حاضری سے استثنا کی درخواست ایک دفعہ پھر مسترد کرتے ہوئے پرویزمشرف کو حکم دیا ہے کہ وہ آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہوں ۔عدالت نے وکیل اختر شاہ کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر پرویزمشرف کی جانب سے دائر درخواستوں پر مختصراََ جواب الجواب دیں،جس کے بعد عدالت اپنا فیصلہ سنائی گی۔بعدازاں علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس کی سماعت 26فروری تک کے لئے ملتوی کردی گئی۔

متعلقہ عنوان :