ملائیشیا کی حزبِ اختلاف کے رہنما انور ابراہیم کو ایک مرد ملازم کے ساتھ جنسی تعلق کے الزام میں دی جانے والی سزا برقرار

منگل 10 فروری 2015 23:33

ملائیشیا کی حزبِ اختلاف کے رہنما انور ابراہیم کو ایک مرد ملازم کے ساتھ ..

کوالالمپور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔10فروری 2015ء)ملائیشیا کی اعلی ترین عدالت نے حزبِ اختلاف کے رہنما انور ابراہیم کو ایک مرد ملازم کے ساتھ جنسی تعلق کے الزام میں دی جانے والی سزا کو برقرار رکھا ہے۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق س فیصلے کے بعد وہ سنہ 2018 میں ہونے والے آئندہ عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔یاد رہے مسلمان اکثریتی ملک ملائیشیا میں ہم جنس پرست اور اغلام بازی غیر قانونی ہے تاہم اس الزام کے تحت بہت کم لوگوں کے خلاف مقدمہ چلایا گیا ہے۔

انور ابراہیم پر اپنے ایک مرد ملازم کے ساتھ سنہ 2008 میں جنسی تعلقات قائم کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا جبکہ انھوں نے اپنے خلاف ان الزامات کو ہمیشہ سیاسی مخالفت کے تحت سازش قرار دیا ہے۔حزب اختلاف کے رہنما کو سنہ 2014 میں پانچ سال کی سزا سنائی گئی تھی اور انھوں نے اس کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔

(جاری ہے)

فیصلے سے قبل انھوں نے کہا کہ ’انھیں مجھے جیل بھیجنے کی کوئی وجہ نہ مل سکی۔

‘انھوں نے مزید کہا: ’میں بے قصور ہوں۔ مجھے اس معاملے میں سیاسی طور پر جیل بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ میں اس نظام کو جانتا ہوں، میں نے جیل میں وقت گزارا ہے لیکن پھر بھی ہمیں یہ قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔‘انور ابراہیم کی قیادت میں مئی سنہ 2013 کے انتخابات میں ملائیشیا کی حزبِ اختلاف کافی مستحکم ہوئی تھی۔ وہ سنہ 2008 اور 2013 کے انتخابات میں حزبِ اختلاف کے مضبوط رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئے تھے۔

سیاسی پنڈتوں کے مطابق حزبِ اختلاف کی تین جماعتوں کے اتحاد کی قیادت کرنے والے انور ابراہیم کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ واحد شخصیت ہیں جو حکومتی اتحاد کے تسلط کو توڑ سکتے ہیں۔انتخابات میں کامیابی کی صورت میں انور ابرہیم ریاست کے وزیرِ اعلیٰ بن سکتے تھے اور یہ ایک مضبوط عہدہ قرار دیا جاتا ہے۔انور ابراہیم نے کہا ’15 برس بعد یہ لوگ دوبارہ مجھے جیل میں ڈالنا چاہتے ہیں اور اسی لیے یہ بوکھلائے ہوئے ہیں۔

‘ستاسٹھ سالہ انور ابراہیم کی یہ اپیل مسترد کر دی گئی ہے اس لیے وہ سنہ 2018ء میں ہونے والے آئندہ عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔سنہ 2008 میں انور ابراہیم پر مرد ملازم کے ساتھ جنسی تعلق کا الزام عائد کیا گیا تھا جس پر ہائی کورٹ نے انہیں مئی سنہ 2012 میں عدم ثبوتوں کی بنا پر بری کر دیا تھا لیکن حکومت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی۔ان پر اس الزام کے تحت دو سال تک مقدمہ چلتا رہا۔ تاہم اس وقت جج ذبی دین دیاح کا کہنا تھا کہ استغاثہ کی جانب سے جمع کروائے گئے ڈی این اے کے شواہد قابلِ اعتماد نہیں ہیں اس لیے مقدمہ خارج کیا جاتا ہے۔