علاقائی استحکام کیلئے پاکستان سے مل کر کام کرتے رہیں گے: باراک اوباما

ہفتہ 7 فروری 2015 22:26

علاقائی استحکام کیلئے پاکستان سے مل کر کام کرتے رہیں گے: باراک اوباما

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔7فروری۔2015ء) امریکی صدر اوباما کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان اور بھارت کے ساتھ مل جل کر کام کریں گے تاکہ علاقائی استحکام کو فروغ دیا جا سکے اور دہشت گردی کا مقابلہ کیا جا سکے تاکہ جنوبی ایشیاء اور وسطی ایشیاء میں معاشی استحکام کی راہ ہموار ہو سکےامریکی صدر باراک اوباما نے قومی سلامتی کا نیا خاکہ جاری کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق کانگریس کو ارسال کردہ دوسری سکیورٹی سٹریٹیجی میں امریکی صدر اوباما کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان اور بھارت کے ساتھ مل جل کر کام کریں گے تاکہ علاقائی استحکام کو فروغ دیا جا سکے اور دہشت گردی کا مقابلہ کیا جا سکے تاکہ جنوبی ایشیاء اور وسطی ایشیاء میں معاشی استحکام کی راہ ہموار ہو سکے۔

(جاری ہے)

امریکی صدر نے کہا کہ پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ کام جاری رکھیں گے تاکہ دہشت گردی کے خطرات کو کم کیا جا سکے اور افغانستان میں تشدد کا خاتمہ کر کے مصالحتی عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔

انہوں نے علاقائی استحکام میں پاکستان کے کردار کا اعتراف کیا۔ انہوں نے افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان کی کوششوں کی بھی تعریف کی۔ انہوں نے کہا ”ہم پاکستان سمیت اس خطے کے ان ملکوں کے ساتھ کام کریں گے تاکہ دہشت گردی کے خطرے کو کم کیا جائے اور افغانستان میں تشدد کے خاتمے اور علاقائی استحکام کے لیے قیامِ امن اور مصالحتی عمل کی حمایت کی جائے۔

ہم اسٹریٹیجک استحکام کے فروغ، دہشت گردی سے مقابلے اور جنوبی و وسطی ایشیا میں علاقائی اقتصادی انضمام کے لیے ہندوستان اور پاکستان دونوں کے ساتھ کام جاری رکھیں گے۔ یاد رہے کہ صدر اوباما نے جمعرات کو کہا تھا کہ دہشت گردی اسلام کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ دوسرے مذاہب بھی یہ رجحان رکھتے تھے۔ انہوں نے ایک بار پھر اس تاثر کو مسترد کر دیا کہ امریکا اسلام کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔

انہوں نے کہا ہم اس جھوٹ کو مسترد کرتے ہیں کہ امریکا اور اس کے اتحادی اسلام کے خلاف حالتِ جنگ میں ہیں۔ کانگریس کو پیش کی گئی قومی سلامتی کی نئی حکمت عملی میں کہا گیا ہے کہ ہم قانون کے نفاذ کے ذریعے دہشت گردوں کو گرفتار کریں گے۔ ان سے پوچھ گچھ کریں گے اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گے تاہم جب فوری نوعیت کے خطرات جاری رہتے ہیں اور جب گرفتاری یا دیگر کارروائیاں خطرات کو روکنے میں کارآمد نہیں رہتیں تب ہم فیصلہ کن کارروائی میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم ہمیشہ سخت احتساب اور مضبوط نگرانی کے ذریعے پابند رہیں گے اور جو کچھ کریں گے وہ قانونی، امتیازی اور تناسب کے ساتھ ہوگا۔ نئی حکمت عملی میں امریکا کے ہندوستان کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کو زبردست اہمیت دی گئی ہے اور ان تعلقات میں نئے امکانات کے راستے کھولنے کا عزم ظاہر کیا ہے لیکن اس میں اس جانب نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات بے مثال ہیں تاہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ چین کی فوج کو جدید بنانے کے عمل کو ہم کڑی نظر سے دیکھتے رہیں گے۔

اس میں چین کے ایسے کسی کردار کو مسترد کر دیا گیا ہے جس کے تحت علاقائی تنازعات کے حل کے لیے وہ دھمکی آمیز رویہ اختیار کرے۔ نئی حکمت عملی میں کانگریس کو مطلع کیا گیا ہے کہ ہندوستان کے امکانات، چین کا عروج اور روس کی جارحیت، تمام نمایاں طور پر مستقبل کے اہم طاقت کے تعلقات پر اثرانداز ہوں گے۔2015 کی قومی سلامتی حکمت عملی میں یاد دلایا گیا ہے کہ بطور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت امریکا اور ہندوستان نے باہمی مفادات اور اپنی موروثی اقدار کے اشتراک سے اپنے تعاون کی بنیاد رکھی ہے۔

کانگریس کو ارسال کیے گئے نوٹ میں صدر اوباما کا کہنا ہے کہ علاقے میں سیکورٹی فراہم کرنے اور اہم علاقائی اداروں میں اس کی شرکت کی توسیع کو دیکھتے ہوئے ہم ہندوستان کے کردار کی حمایت کرتے ہیں۔ اس حکمت عملی میں خطرے سے دوچار ریاستوں میں زیادہ جامع اور جوابدہ حکومت کی حمایت کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ یہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔

حکمت عملی کی اس دستاویز میں واضح کیا گیا ہے کہ افغانستان میں امریکا کا جنگی مشن ختم ہو گیا ہے اور افغانستان میں ایک مستحکم اور خودمختار پارٹنر کے مقصد کے حصول پر فوج کے مختصر حصے کی توجہ مرکوز ہے تاکہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ نہ بنا رہے افغانستان میں جنگی مشن کا خاتمہ امریکی افواج، سویلین اور عالمی پارٹنرز کے باعث ممکن ہو سکا ہے انہوں نے اسامہ بن لادن کو ٹھکانے لگایا اور القاعدہ کی اعلیٰ قیادت کو شکست دی۔

متعلقہ عنوان :