سینٹ الیکشن میں لوگوں کی ضمیر کو خریدنے کی افواہیں اراکین پارلیمنٹ کی عزت نفس کے لئے ٹھیک نہیں ہیں،مولانا گل نصیب خان،

حکومت اور الیکشن کمیشن اف پاکستان اس سلسلے میں اقدامات کریں تاکہ شاف وشفاف انتخابات ہوسکیں،پریس کانفرس سے خطاب

جمعرات 5 فروری 2015 23:20

جنوبی وزیرستان (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔5فروری2015ء ) سابق سنیٹر اور جمعیت علماء اسلام ف کے صوبائی امیرمولانا گل نصیب خان نے کہا ہے کہ سینٹ کے الیکشن میں لوگوں کی ضمیر کو پیسوں کے زریعے خریدنے کی افواہیں اراکین پارلیمنٹ کی عزت نفس کے لئے ٹھیک نہیں ہیں ۔حکومت اور الیکشن کمیشن اف پاکستان اس سلسلے میں اقدامات کریں تاکہ شاف وشفاف انتخابات ہوسکیں۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے جمعرات کے روز جنوبی وزیرستان کے ممتاز راہنما ملک سعیدانور محسود کی رہائش گاہ پر منعقد ہ پریس کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ان موقع پر صوبائی ڈپٹی امیر اور سابق سنیٹر مولانا راحت حسین ،جمعیت علماء اسلام ف جنوبی وزیرستان کے امیر مولانا مولانا قاضی غین اللہ بابا،ملک سعید انور محسود،ملک پشاور خان محسود اور دیگر عمائدین و علماء کرام بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

مولانا گل نصیب خان کا کہناتھا کہ سینٹ کے حالیت انتخابات کے حوالے جو افواہیں پھیل چکی ہیں کہ اراکین پارلیمنٹ کے ضمیروں کا سودا کیاجارہا ہے ۔یہ تشویشنا ہے ۔ان کا کہناتھا کہ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن اف پاکستان اس سلسلے میں ضروری اقدامات کریں۔ان کاکہنا کہ جمعیت علماء اسلام ف سینٹ کے انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی۔اور ایوان بالاء کے لئے انے اومیدواروں کا چناو کریں گے۔

ان کا کہناتھا کہ جمعیت علماء اسلام ملک کے نظام میں ایک مثبت کردا ر ادا کررہے ہیں۔مولانا گل نصیب کا کہناتھا کہ 16دسمبر کو پشاور ارمی سکول کا جو سانحہ پیش ہوا ۔اس واقعہ کے ردعمل میں پوری قوم متحد ہوگئی ۔مگر سانحہ پشاو ر ارمی سکول کی حکومتی تحقیقات سے لوگ مطمئن نہیں ہیں ۔یہی وجہ سے ہے کہ شہداء کی مائیں اب سڑکوں پر نکل چکی ہیں۔ان کا کہناتھا کہ پشاور ارمی سکول واقعہ کا اصل مجرم صوبائی حکومت ہے۔

وفاقی وزیرداخلہ نے ایک پریس کانفرنس میں واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ اداروں پر انگلی نہ اٹھائی جائے ۔اداروں نے ایک ماہ قبائل ہی بتایا تھا ۔کہ اس قسم کے واقعات ہونے والے ہیں۔ان کا کہناتھاکہ صوبائی حکومت نے اپنی زمہ داری پوری نہیں کی۔نہ انھوں نے امن وامان قائم کیا اور نہ ہی دہشت گردی کی تہہ تک پہنچنے کے لئے حکومت نے جو راستے اپنائے ہیں اس پر حکومت کو اعتماد نہیں رہا ہے۔

اکیسویں ترمیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مولاگل نصیب خان کا کہناتھا کہ اس ائین میں مذہبی دہشت گری کا جو لفظ استعمال کیاگیا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ لسانی دہشت گردوں کو چھٹی دیا گیا ۔اور علاقے کی سطح پر جو لوگ دہشت گردی کررہے ہیں۔ان کو بھی چھٹی دیاگیا ۔صرف ایک ایسے لفظ کو سامنے لایاگیا جس نے ایک خاص طبقے کو متاثر کرنا ہے۔جمعیت علماء اسلام نے اسی کو بنیاد بناکر صوبہ بہر میں تربیتی اجتماعات کررہے ہیں۔

جواصل دہشت گردی تک پہنچنے کی بجائے مدارس او ر علماء پر نزلہ ڈالہ گیاہے ۔ایسے حالات میں اگر ایک طبقہ جزباتی ہوجائے تو حالات خانہ جنگی کی طرف جاسکتے ہیں۔ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کے لئے جمعیت علماء اسلام نے اجتماعات کرکے شعور اور ایجوکیشن کے زریعے سے اپنے کارکنوں کو سمجھانا ہے ۔تاکہ حالات کا صحیح تدارک کرسکیں۔اور حالات کا مقابلہ بھی کرسکیں۔