قادری، تاثیر کو کس طرح گستاخ قرار دے سکتا ہے؟ عدالت

جمعرات 5 فروری 2015 22:37

قادری، تاثیر کو کس طرح گستاخ قرار دے سکتا ہے؟ عدالت

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔5فروری۔2015ء)سلمان تاثیر کے قتل میں سزا کے فیصلے کے خلاف ممتاز قادری کی اپیل کی سماعت کرنے والے عدالتی بینچ نے وکیلِ صفائی سے سوال کیا کہ کیا ایک پولیس کانسٹبل اپنے عقائد کی بنیاد پر کسی فرد کے خلاف کوئی فیصلہ لے سکتا ہے یا اس کو سزا سنا سکتا ہے یا نہیں؟جسٹس نور الحق این قریشی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس ڈویژنل بینچ نے یہ سوال بدھ کے روز مقدمے کی سماعت کے دوران ممتاز قادری کے وکیل کے سامنے رکھا۔

ایلیٹ فورس کے سابق کمانڈو ممتاز قادری نے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو اسلام آباد کوہسار مارکیٹ میں چار جنوری 2011ء کو گولی مار کر قتل کردیا تھا۔ راولپنڈی میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے انہیں اکتوبر 2011ء میں مجرم قرار دیا تھا اور انہیں دو مرتبہ سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تھا۔

(جاری ہے)

بدھ کے روز جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ممتاز قادری کے وکلاء کی ٹیم سے کہا کہ وہ عدالت کو سمجھائیں کہ ’’ایک پولیس اہلکار کسی فرد کے بارے میں یہ تعین آخر کس طرح کرسکتا ہے کہ وہ گستاخ تھا یا نہیں۔

‘‘انہوں نے پوچھا ’’توہین رسالت کے قوانین کی موجودگی میں ایک فرد کی جانب سے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا کس طرح جواز پیش کرسکتے ہیں؟‘‘انہوں نے وکلاء سے کہا کہ اگر ممتاز قادری کو یقین تھا کہ گورنر نے ایسا کچھ غلط کیا ہے تو انہوں نے سلمان تاثیر کے خلاف درخواست دائر کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟۔ججز نے اپنے ریمارکس میں کہا اگر یہ صورتحال برقرار رہتی ہے تو کل کو کوئی شخص کسی فرد کا اس بات کی سزا دیتے ہوئے اس کی زندگی کا خاتمہ کرسکتا ہے کہ اس نے مذہبی کلمات ادا نہیں کیے یا سبز رنگ کی پگڑی نہیں پہنی۔

جسٹس نور الحق این قریشی نے اس نکتے کی جانب اشارہ کیا کہ اگر اس طرح کے اقدام کو نظرانداز کردیا گیا تو یہ ہر ایک کو مذہب کے نام پر ’’قتل کرنے کا لائسنس‘‘ دینے کے مترادف ہوگا، جس سے قاتلوں کو یہ چھوٹ مل جائے گی کہ وہ اپنے جرائم کا جواز پیش کے لیے مقتول کو ملحد قرار دے دیں گے۔انہوں نے ریمارکس دیے ’’کسی بھی شخص کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتے۔

ریاست میں ایک نظام موجود ہے، اور دستیاب ثبوت کی بنیاد پر ہی مناسب فورم کے تحت کسی شخص پر مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔‘‘فاضل جج نے کہا کہ اس طرح کے معاملات میں اضافی احتیاط کی ضرورت تھی۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ایک حالیہ مقدمے میں ایک مذہبی پیشوا نے من گھڑت شہادت کے ذریعے ایک کم سن مسیحی بچی کو توہین رسالت کے کیس میں ملؤث کرنے کی کوشش کی۔

انہوں نے کہا کہ اسلام نے رواداری کی تعلیم دی ہے، اور یاد دلایا کہ نبیٔ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو کچھ نہیں کہا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر روزانہ کچرہ پھینکا کرتی تھی، اور رواداری اور حسن اخلاق کے ذریعے اس کے دل کو تبدیل کردیا۔جسٹس نور الحق قریشی نے کہا کہ ایک انسان کی زندگی کسی بھی چیز سے زیادہ مقدس ہے، انہوں نے مزید کہا کہ عدالت اس بات کی جانچ کرے گی کہ یہ قتل ، ایک اقدامِ قتل تھا یا نہیں۔

ممتاز قادری کے مرکزی وکیل ریٹائرڈ جسٹس میاں نذیر احمد نے دلیل دی کہ ان کے مؤکل کو انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مجرم قرار دیا تھا، جبکہ استغاثہ نے اس حوالے سے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا تھا کہ سلمان تاثیر کا قتل ، دہشت گردی کی کارروائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ممتاز قادری ایک ایماندار پولیس اہلکار تھے، اور ان کی مقتول گورنر کے ساتھ کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔

میاں نذیر احمد نے کہا کہ شہریوں کی اکثریت اپنے مذہبی عقائد کی توہین کرنے والے کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ انہوں نے دلیل دی کہ ’’مجھے یقین ہے کہ سلمان رشدی اگر یہاں آیا تو اس کو قتل کردیا جائے گا۔‘‘تاہم وکیل صفائی نے کہا کہ وہ عدالت کے سوالات کا جواب جمعہ کے روز جمع کرائیں گے۔لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس خواجہ محمد شریف نے دعویٰ کیا کہ انسدادِ ممتاز قادری کے مقدمے کے دوران دہشت گردی کی عدالت کے سامنے استغاثہ نے تمام قانونی لوازمات کو پورا نہیں کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ تفتیشی افسر نے ایک اہم گواہ وقاص خان کا بیان ریکارڈ نہیں کیا تھا، جو اسلام آباد میں سلمان تاثیر کے میزبان تھے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ جائے وقوعہ کے نقشے کے مطابق وقاص خان حملے کے وقت سلمان تاثیر کے ہمراہ تھے۔خواجہ شریف نے دعویٰ کیا کہ یہ فائرنگ دہشت گردی کا اقدام نہیں تھا، اور ممتاز قادری کا کوئی مجرمانہ پس منظر نہیں تھا۔اس موقع پر لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس نے یہ اعلان بھی کیا کہ وہ افراد جنہوں نے متنازعہ فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو پر حملہ کرکے اس کے ایڈیٹر اور عملے سمیت بارہ لوگوں کو توہین آمیز کارٹون کی اشاعت کے بدلے میں قتل کیا، وہ ان کے ہیرو ہیں۔