جب نظربند ججوں کی رہائی کا حکم جاری کیا تو مسلم لیگ والوں نے کہا کہ آپ نے اعتماد میں نہیں لیامیں نے کہا اعتماد میں لیتے تو یہ کریڈٹ بھی آپ لے جاتے، گیلانی کا انکشاف،

اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کو پتہ تھا ہم ایگزیکٹو آرڈر سے ججوں کو بحال کردیں گے، نواز شریف نے ججوں کی بحالی کیلئے جو لانگ مارچ کیا تھا وہ ہمیں بند گلی میں دھکیلنا چاہتے تھے، میرے ایم ایس نے مجھے چٹ دی کہ اب آپ وزیراعظم نہیں وہ چٹ میں نے صدر آصف زرداری کو دے دی اور بغیر جھنڈے کے وزیراعظم ہاؤس آیا، سرائیکی صوبہ بن کر رہے گا، مسلم لیگ(ن) اگر این ایف سی ایوارڈ کے مطابق بھی جنوبی پنجاب کو حصہ دیدے تو یہاں خوشحالی آسکتی ہے، وہ سیاستدان تبدیلی لاسکتے ہیں جو وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو ٹکٹ نہ دیں، سابق وزیراعظم کا ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان میں وکلاء سے خطاب

پیر 2 فروری 2015 22:33

جب نظربند ججوں کی رہائی کا حکم جاری کیا تو مسلم لیگ والوں نے کہا کہ آپ ..

ملتان(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔2فروری 2015ء) پیپلزپارٹی کے مرکزی سینئر وائس چیئرمین اور سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے انکشاف کیاہے کہ جب نظربند ججوں کی رہائی کا حکم جاری کیا تو مسلم لیگ والوں نے کہا کہ آپ نے اعتماد میں نہیں لیامیں نے کہا اعتماد میں لیتے تو یہ کریڈٹ بھی آپ لے جاتے،اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کو پتہ تھا ہم ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ججوں کو بحال کردیں گے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے ججوں کی بحالی کیلئے جو لانگ مارچ کیا تھا وہ ہمیں بند گلی میں دھکیلنا چاہتے تھے۔ میرے ایم ایس نے مجھے چٹ دی کہ اب آپ فیصلے کے مطابق وزیراعظم نہیں وہ چٹ میں نے صدر آصف زرداری کو دے دی اور پھر بغیر جھنڈے کے وزیراعظم ہاؤس آیا۔سرائیکی صوبہ بن کر رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) اگر این ایف سی ایوارڈ کے مطابق بھی جنوبی پنجاب کو حصہ دیدے تو یہاں خوشحالی آسکتی ہے۔

(جاری ہے)

ملک میں وہ سیاسی پارٹیاں اور وہ سیاستدان تبدیلی لاسکتے ہیں جو وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو ٹکٹ نہ دیں‘ اس ملک کو نقصان صرف پارٹی بدلنے والوں نے پہنچایا ہے اور عمران خان کے پاس بھی وہی لوگ جارہے ہیں جنہوں نے اپنی اپنی پارٹیوں سے وفاداریاں تبدیل کرتے ہوئے بے وفائی کی ہے۔ یہ بات انہوں نے پیر کے روز ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان میں وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا وزیراعظم ہوں جسے اتفاق رائے سے منتخب کیا گیا اور میں سب جماعتوں کو ساتھ لے کر چلا اور میں سب زیادہ وقت رہنے والا وزیراعظم بنا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں کسی بھی پارٹی نے آئینی مدت پوری نہیں کی مگر ہم نے پہلی مرتبہ اپنی آئینی مدت پوری کی اور پرامن انتقال اقتدار کیا۔ انہوں نے کہا کہ عوام نے مجھے منتخب کیا تھا۔

میں نے جو عوام کیلئے کیا اور میں نے وکلاء کیلئے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جب ہم اپوزیشن میں تھے تو جیلوں میں تھے اور باہر نکلے تو وکلاء تحریک میں شامل ہوئے۔ عدلیہ کی آزادی کیلئے ماریں کھائیں۔ جیل گئے اور دہشت گردی کے مقدمات بنوائے۔ بے نظیر بھٹو نے میڈیا اور عدلیہ کی آزادی کیلئے لانگ مارچ کا فیصلہ کیا لیکن انہیں نظربند کردیا گیا اور پھر مجھے ہی اس کی قیادت کرنی پڑی میں اور میں بھی جیل گیا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم بننے کے بعد میں نے پہلا حکم نظر بند ججوں کو رہا کرنے کا جاری کیا جس پر مسلم لیگ والوں نے کہا کہ آپ نے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا تو میں نے کہا کہ اگر میں آپ کو اعتماد میں لے لیتا تو یہ کریڈٹ بھی آپ لے جاتے۔ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ جنرل کیانی نے حکومت سے کہا کہ آپ نے ججوں کو بحال کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل کیانی یہ کام مشرف کے دور میں بھی کرسکتے تھے۔

میرے پاس جنرل کیانی آئے اور کہا کہ آپ ججوں کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقبال ٹکا کیس کے بعد آپ ججوں کو ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بحال نہیں کرسکتے۔ میں نے کہا کہ ہم بحال کردیں گے۔ اس کی تشریح خود ججوں نے کرنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کو پتہ تھا ہم ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ججوں کو بحال کردیں گے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے ججوں کی بحالی کیلئے جو لانگ مارچ کیا تھا وہ ہمیں بند گلی میں دھکیلنا چاہتے تھے۔

میں نے کہا کہ صدر اور وزیراعظم ہمارا ہے‘ سپیکر‘ چیئرمین سینٹ ہمارا ہے۔ سندھ میں ہماری حکومت ہے‘ پنجاب میں ہماری مخلوط حکومت ہے تو ہم کیوں نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ صدر آصف زرداری نے جنرل کیانی کو بلایا اور میں نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ عدلیہ کو بحال کردیا جائے تو انہوں نے دو گھنٹے مانگے۔ مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے کن کن لوگوں سے رابطہ کیا مگر وہ ایک گھنٹے بعد واپس آئے۔

اس رات ساری قوم جاگتی رہی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اس دن سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو اسلئے بحال نہیں کیا کہ جسٹس ڈوگر ریٹائر نہیں ہوئے تھے۔ ہم نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو اس وقت بحال کیا جب جسٹس ڈوگر ریٹائر ہوگئے۔ ہم نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو جسٹس ڈوگر کی ریٹائرمنٹ کے بعد بحال کیا کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ ایک وقت میں دو چیف جسٹس ہوں اور اگر میں ایسا کرتا تو مجھ پر بھی آرٹیکل 6 کا اطلاق ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے آئین پر عمل کیا اور پرویز مشرف والی غلطی نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں دو قانون ہیں۔ میں نے اور میرے مشقتی نے ایک ساتھ رہائی حاصل کی جبکہ اسے دس سال اور مجھے پانچ سال سزا ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہاں جو سیاستدان ایک دن جیل جاتا ہے وہ دوسرے دن ہسپتال داخل ہوجاتا ہے۔ انہوں نے وکلاء سے سوال کیا کہ وکلاء بتائیں کہ پاکستان میں توہین عدالت کے جرم میں پہلے کوئی سیاستدان اقتدار سے الگ ہوا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرا جرم یہ تھا کہ میں نے بحیثیت وزیراعظم آئین کی پاسداری کی اور سوئس حکام کو خط نہ لکھا کیونکہ میں نے حلف اٹھایا تھا کہ میں غیر آئینی اقدام نہیں کروں گا۔

آئین کے تحت سابق صدر آصف زرداری کو استثنیٰ حاصل تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہاں این آر او کے تحت آٹھ ہزار افراد نے فائدہ اٹھایا مگر میں نے فائدہ نہیں اٹھایا اور مجھے تا برخواست عدالت سزا ملی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ عدلیہ میں پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کو تین رکنی بنچ نے اڑایا مگر میں نے اپیل نہیں کی کیونکہ یہ فیصلہ یوسف رضا کیخلاف نہیں سپیکر کی رولنگ اور پارلیمنٹ کیخلاف تھا۔

انہوں نے کہا کہ جب میرے خلاف فیصلہ آیا تو میں ایوان صدر میں تھا اور پارٹی کی سی ای سی کا اجلاس ہورہا تھا۔ میرے ایم ایس نے مجھے چٹ دی کہ اب آپ فیصلے کے مطابق وزیراعظم نہیں وہ چٹ میں نے صدر آصف زرداری کو دے دی اور پھر بغیر جھنڈے کے وزیراعظم ہاؤس آیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ایک منٹ میں اٹھارہ کروڑ عوام کے مفاد میں فیصلہ کیا کیونکہ میں اداروں کے درمیان تصادم نہیں کرانا چاہتا تھا۔

ہم نے آئین بنایا اور اسے بحال کیا اور اسلئے اس کے پابند تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب لوگوں کو انصاف ملے گا ادارے مضبوط ہوں گے۔ میں نے 73ء کا آئین بحال کیا اور پیپلزپارٹی کیساتھ کھڑا تھا‘ کھڑا ہوں اور کھڑا رہوں گا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کیلئے آئین میں ترمیم کی جس کا فائدہ نواز شریف کو پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بحیثیت وزیراعظم اور آصف زرداری نے بحیثیت صدر سرائیکی صوبے کی آواز بلند کی اور پنجاب اسمبلی اور سینٹ سے قراردادیں منظور کروائیں تاہم قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے قرارداد منظور نہ ہوسکی۔

اگر مسلم لیگ (ن) ہمیں اس وقت سپورٹ کردیتی تو سرائیکی صوبہ بن چکا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) نے بہاولپور صوبہ اور ہم نے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کیلئے پنجاب اسمبلی سے قرارداد منظور کروائی مگر مسلم لیگ(ن) نہیں چاہتی کہ بہاولپور یا سرائیکی صوبہ بنے۔ سرائیکی صوبہ بننا میرے اکیلے کی نہیں سرائیکی عوام کی خواہش ہے اور یہ سرائیکی صوبہ بن کر رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) اگر این ایف سی ایوارڈ کے مطابق بھی جنوبی پنجاب کو حصہ دیدے تو یہاں خوشحالی آسکتی ہے۔ اس موقع پر ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سید اطہر حسین بخاری نے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور ان کے والد سید علمدار حسین گیلانی کی تعریف کی اور کہا کہ سید یوسف رضا گیلانی نے وکلاء تحریک میں ہمارا بہت ساتھ دیا ہے۔ وکلاء ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کیلئے ہمیشہ اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ تقریب سے ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل حسین ٹانگرا نے بھی خطاب کیا۔۔