دھرنے نہ دئیے جاتے تو پاکستان بھی چین کے صدر کا اس طرح استقبال کر تا جس طرح بھارت میں امریکی صدر کا کیا گیا ‘ احسن اقبال،چینی صدر کے دورہ پاکستان کے نتائج سے بھارت ہی نہیں پوری دنیا دھنگ رہ جاتی ،حکومت اداروں کی دوبارہ تعمیر اور انہیں پاؤں پر کھڑا کر رہی ہے،ملک میں سیاسی استحکام اور امن نہیں ہو گا تو معاشی ترقی کے تمام فارمولے فیل ہیں ،نوبیل انعام یافتہ ماہرین بھی ناکام ہو جائینگے ،2018ء میں عوام کی عدالت میں جائینگے تو 2013ء سے بہتر پاکستان چھوڑ کر جائیں گے ‘ وفاقی وزیر کا مقامی ہوٹل میں امن کانفرنس سے خطاب

پیر 26 جنوری 2015 19:35

دھرنے نہ دئیے جاتے تو پاکستان بھی چین کے صدر کا اس طرح استقبال کر تا ..

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔26جنوری۔2015ء) وفاقی وزیر منصوبہ بندی ، ترقیات و اصلاحات احسن اقبال نے کہا ہے کہ اگر دھرنے نہ دئیے جاتے تو پاکستان بھی چین کے صدر اس طرح استقبال کر تا جس طرح بھارت میں امریکی صدر کا کیا گیا ،چینی صدر کے دورہ پاکستان کے نتائج سے صرف بھارت ہی نہیں بلکہ پوری دنیا دھنگ رہ جاتی ،موجودہ حکومت اداروں کی دوبارہ تعمیر اور انہیں پاؤں پر کھڑا کر رہی ہے اور یہ صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے ، اگر ملک میں سیاسی استحکام اور امن نہیں ہو گا تو معاشی ترقی کے تمام فارمولے فیل ہیں اور نوبیل انعام یافتہ ماہرین بھی ناکام ہو جائیں گے ،جب 2018ء میں عوام کی عدالت میں جائیں گے تو 2013ء سے بہتر پاکستان چھوڑ کر جائیں گے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز مقامی ہوٹل میں امن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

احسن اقبال نے کہا کہ مسلم لیگ (ق) والے نو سال تک جنرل مشرف کے ساتھ رہے لیکن انہوں نے لال مسجد میں خون کی ہولی کھیلنے سے پرویز مشرف کا ہاتھ نہیں روکا ،اگر ایسا ہوتا تو آج ملک میں خود کش بمباروں کی لہر پیدا نہ ہوتی ، اگر پرویز مشرف کو اکبر بگٹی کے قتل سے روکا ہوتا تو آج ہم بلوچستان میں ایسے حالات کا سامنا نہ کر رہے ہوتے ۔

(ق) لیگ والوں نے دس سالہ عہد میں جنرل مشرف کو بجلی پیدا کرنے کے کارخانے ، ڈیم بنانے اور گیس کے منصوبے شروع کرنے کی مت نہیں دی اوراگر ایسا ہوتا تو آج ملک میں بجلی او رگیس کا بحران نہ ہوتا ۔ دس سال تک استعمال تو کیا گیا لیکن کیا منصوبے لگانا کسی اور کی ذمہ داری تھی ۔ انہوں نے کہا کہ 1999ء میں جب ہم سے حکومت چھینی گئی تو اس وقت پاکستان بھارت کو بجلی ایکسپورٹ کرنے کی بات کر رہا تھا لیکن جب 2013ء میں ہمیں دوبارہ حکومت ملی تو اس وقت پانچ ہزار میگا واٹ سے زائد کی نہ صرف کمی بلکہ ڈسٹری بیوشن اور ٹرانسمیشن کا نظام بھی تباہ حال تھا۔

اگر ہم جادو کے ذریعے پانچ ہزار میگا واٹ کی کمی کو پورا کر بھی لیں تب بھی ڈسٹری بیوشن اور ٹرانسمیشن لائنوں میں اتنی استعداد نہیں کہ وہ اس بجلی کو لوگوں تک پہنچا سکے بلکہ اس سے گرڈ سسٹم اڑ جاتاہے ۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ جب ہم 2018ء میں عوام کی عدالت میں جائیں گے تو 2013ء سے بہت بہتر پاکستان چھوڑ کر جائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ پیٹرول کے بحران پر ہمارے مخالفین اور میڈیا میں بڑا شور و غوغا کیا گیا ۔

ہماری حکومت کی نیک نیتی تھی کہ ہم نے عالمی منڈی میں ہونیو الی کمی کا فائدہ عوام تک منتقل کیا حالانکہ ہمارے ہمسائے سمیت دیگر ممالک نے اس فائدے کو حکومتی خزانے میں منتقل کیا ۔ حکومت کی کوشش ہے کہ مہنگائی سے دوچار پاکستانی عوام کو کچھ ریلیف مل سکے ،ہم نے مختصر ترین مدت میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30روپے لیٹر تک کمی کی اور یکدم اتنی زیادہ کمی سے مانگ میں غیر معمولی اضافہ ہوا اور کچھ دنوں کے لئے خلل بھی پیدا ہوا جس پر وزارتوں کی کارکردگی پر انگلیاں اٹھائی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ جمہوری حکومتیں مارشل لاء کے بعد پل صراط سے گزر کر عوام کی خدمت کر رہی ہوتی ہیں ۔ مارشل لاء کے دور میں سول اداروں کو کھوکھلا اور تباہ کر دیا جاتا ہے ۔ میں نے 1999ء میں جس وزارت کو چھوڑا تھا اور جب میں 2013ء میں واپس آیا ہوں تو اس وقت وزارتوں کی کارکردگی 45فیصد تھی جو آج کم ہو کر 15سے 18فیصد پر آ گئی ہے ۔ ڈکٹیٹر شپ میں شخصی حکمرانی کے ذریعے اداروں کی کارکردگی کو تباہ کیا جاتا ہے ۔

اداروں کو دوبارہ تعمیر کرنا جادو کی چھڑی نہیں ہوتی بلکہ اداروں کی تعمیر انتہائی صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے ۔موجودہ حکومت اداروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کر رہی ہے ۔ کچھ لوگ مایوسی پھیلاتے ہیں لیکن مایوسی کے ساتھ ترقی نہیں کی جا سکتی ۔ اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ پاکستان نے ساؤتھ کوریا‘ جاپان‘ انڈونیشیاء اور ہمسایہ ملک کی طرح تیز رفتاری سے کیوں ترقی نہیں کی لیکن میں بتانا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک وہاں سیاسی استحکام نہ ہو اور وہاں امن نہ پیدا کیا جائے ۔

معاشی ترقی کے لئے سیاسی استحکام اور امن اسی طرح نا گزیر ہے جس طرح انسان کے لئے آکسیجن ضروری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج ہر پاکستانی بے چینی سے دیکھ رہا ہے کہ بھارت میں امریکی صدر کا کس طرح استقبال کیا گیا ۔ اگر یہاں دھرنے نہ دئیے جاتے پاکستان بھی چین کے صدر کا اسی طرح استقبال کرتا اور اسکے نتائج دیکھ کر نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا دھنگ رہ جاتی ۔

انہوں نے کہا کہ یہ خوش آئند ہے کہ عمران خان نے کہا ہے کہ ہم نیا پاکستان خیبر پختوانخواہ میں بنائیں گے ۔ سب جماعتوں کو مینڈیٹ ملا ہے اب2018ء میں عوام نے فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے ملک کی باگ ڈور کس جماعت کے ہاتھ میں دینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم ایک دوسرے سے الجھیں گے تو اس لڑائی سے ملک میں بے یقینی کی فضاپیدا ہو گی ۔ ہمیں دہشتگردی‘ جہالت ‘ نفرتوں کے خاتمے ‘ لوڈ شیڈنگ اور معاشی مسائل کوحل کرنے کیلئے اتفاق‘ یکجہتی اور یگانگت کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ ہم دنیا میں تیز رفتار ترقی کرنے والے ملک کی حیثیت سے پہچانے جا سکیں ۔

انہوں نے کہا کہ یہاں تک کہا گیا کہ حکومت ناکام ہو گئی ہے لیکن کیا حکومت آج دہشتگردی کے خلاف ضرب عضب کی صورت میں دہشتگردی کے خلاف زیادہ یکسوئی سے جنگ نہیں لڑ رہی اور ہم اس جنگ میں پیش قدمی نہیں کر رہے ۔ آج کراچی کے صنعتکار اور عام شہری سے اسکے امن کے ابتر یا بہتر ہونے بارے پوچھا جائے تو یقینا جواب مثبت آئے گا کیا یہ ہماری کامیابی نہیں ۔ آج پاکستان کے معاشی اعشاریے بہتر نہیں ہوئے ، سات ارب ڈالر کے زر مبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 15ارب ڈالر تک پہنچنا کیا ہماری کامیابی نہیں ۔ کراچی سٹاک ایکسچینج جو دم توڑ چکی تھی کیا وہ بلندیوں کو نہیں چھو رہی یہی چندچند چیزیں ہیں جو کسی ملک کی سمت کا تعین کرتی ہیں ۔