پاکستان میں ہر سال300سے 400 نئے زائد جذام کے مریض رجسٹرد کیے جاتے ہیں،طبی ماہرین،

پاکستان میں 56,500 جذام کے مریض رجسٹر کیے جاچکے ہیں ، 98% کا علاج مکمل ہوچکاہے، 2013 میں کل 431 نئے مریض رجسٹر کئے گئے ،48% سندھ جبکہ 68%کراچی سے تعلق رکھتے تھے،جذام کے عالمی دن پر پریس کانفرنس میں اظہار خیال

ہفتہ 24 جنوری 2015 22:23

کراچی (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 24 جنوری 2015ء) طبی ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان میں ہر سال300سے 400 نئے زائد جذام کے مریض رجسٹرد کیے جاتے ہیں اور نئے مریض ظاہر ہونے کا یہ سلسلہ آئندہ 2 دہائیوں تک ۔اب تک پورے پاکستان میں 56,500 جذام کے مریض رجسٹرد کیے جاچکے ہیں جس میں سے 98% مریضوں کا علاج مکمل ہوچکاہے۔ سال 2013 میں ملک بھر میں کل 431 نئے مریض رجسٹرڈ کئے گئے تھے ان نئے مریضوں میں48% مریض صوبہ سندھ میں رجسٹرڈ کئے گئے تھے، جن میں سے 68%مریض کراچی سے تعلق رکھتے تھے۔

اُسی سال ملکی سطح پر مریضوں میں تقریباً 10%اضافہ دیکھنے میں آیا جس کی وجہ بیماری کاوہی طویل مدتی دورانیہ ہے۔میری ایڈیلیڈ لیپروسی سیئنٹر (ایم اے ایل سی) میں تمام مریضوں کا علاج مفت کیا جاتا ہے جبکہ ایم اے ایل سی جذام کی بیماری کو روکنے کیلئے ملک بھر میں 157سینٹر قائم کیے ہیں جہاں پرآنے والے تمام مریضوں کو علاج و معالجہ سمیت دیگر تمام طبی سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

جذام کے عالمی دن منانے کا مقصددنیا بھر میں جلد کے موذی مرض جذام کی روک تھام کے ضرورت اور اس بیماری کے بارے میں شعور و آگاہی پیداکرنا اور جذام کے مریضوں کی بحالی اور معاشرے میں ان کے خلاف امتیازی برتاؤ کی روک تھام کرناہے، ان خیالا ت کا اظہار ماہرین نے میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر کی جانب سے جذام کے عالمی دن کے موقع پر منعقدہ پریس کانفرنس میں کیا۔

اس موقع پر ایم اے ایل سی کی صدر ڈاکٹر روتھ فاؤ، ڈاکٹر مطاہر ذیا، ڈاکٹر مظہر علی اور مسٹرمارون لوبونے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ نے بتایا کہ جذام قابل علاج مرض ہے۔ بروقت علاج سے معذوری سے بچا جاسکتا ہے اور مریض مکمل طور پر صحتیاب ہوکر صحت مند زندگی گزار سکتا ہے، اس کیلئے اس مرض میں مبتلا ہونے پر شرمندہ یا خوفزدہ ہونے کے بجائے اس کا بروقت علاج کروانا چاہیے تاکہ نہ صرف معذوری بلکہ معاشی اور معاشرتی مسائل سے بھی بچا جاسکے۔

یہ وہ پیغام ہے جسے گھر گھر پہنچا نا ضروری ہے۔ انھوں نے مزیدبتایا کہ لیپروسی کنٹرول پروگرام کو آج جس بڑے چیلنج کا سامنا ہے وہ ہے فرسودہ خیالات اور بے بنیاد عقیدہ جو معاشرے میں اس مرض سے متعلق پایا جاتا ہے جس کے باعث مریض مرض میں مبتلا ہونے پر اپنے مرض کو چھپاتے ہیں اور بروقت علاج نہیں کرواپاتے اور مرض کے پیچیدہ ہونے پر معذوری کا شکار ہوکر مختلف معاشی اور معاشرتی مسائل سے دوچار ہوجاتے ہیں۔

اس موقع پر انھوں نے اپیل کی ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنے پیارے ملک پاکستان کو جذام مرض سے پاک کرنے کی ہماری اس جدوجہد میں ساتھ دے کر ہمارے ہاتھ مضبوط کریں اور ہمارے اس پیغام کو ملک کے کونے کونے میں پہنچانے میں ہماری مدد کریں۔اس سے نہ صرف مرض کا خاتمہ جلد ممکن ہو سکے گا بلکہ بروقت تشخیص ہونے والے مریضوں میں معذوری کا تناسب بھی کافی حد تک کم ہو جائے گا۔

سٹر مارون لوبونے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا پاکستان میں ماری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر گذشتہ 60 برسوں سے جذام کے خاتمے کے لئے سرگرم ہے۔ اللہ کے فضل وکرم اور ڈاکٹر روتھ فاؤ کی محنت اور کاوشوں سے پاکستان میں اس مرض پر قابو پایا جاچکا ہے۔ ہر سال نئے مریضوں کی تعداد بتدریج کم سے کم ہوتی چلی جارہی ہے اور کمی کا یہ رجحان گذشتہ18سالوں سے برقرار ہے جو لیپروسی کنٹرول کی کامیابی کی دلیل ہے۔

جذام کے خلاف جنگ ابھی جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی جب تک آخری مریض کا علاج نہیں ہوجاتا اور وہ صحتیاب نہیں ہوجاتا۔ ہر سال تقریباً 300 سے 400 نئے مریض رجسٹرڈ کئے جاتے ہیں اور نئے مریض ظاہر ہونے کا یہ سلسلہ آئندہ 2 دہائیوں تک یونہی رہے گا۔ اس کی وجہ اس بیماری کے ظاہر ہونے کا طویل مدتی دورانیہ ہے۔ دورانیہ سے مراد جراثیم کاانسانی جسم میں داخل ہونے اوربیماری کی علامات ظاہر ہونے کا وہ عرصہ ہے جو 5 تا 40 سال تک ہو سکتا ہے۔

ال 2013 میں ملک بھر میں کل 431 نئے مریض رجسٹرڈ کئے گئے تھے ان نئے مریضوں میں48% مریض صوبہ سندھ میں رجسٹرڈ کئے گئے تھے، جن میں سے 68%مریض کراچی سے تعلق رکھتے تھے۔ اُسی سال ملکی سطح پر مریضوں میں تقریباً 10%اضافہ دیکھنے میں آیا جس کی وجہ بیماری کاوہی طویل مدتی دورانیہ ہے کیونکہ نئے مریضوں میں 26% مریض خود جذام سے متاثرہ مریضوں کے اہل وعیال میں سے تھے۔

دوسری وجہ پڑوسی ممالک سے وہاں کے باشندوں کی پاکستان آمد جن میں افغان مہاجرین بھی شامل ہیں، ہوسکتی ہے۔ اب تک پورے پاکستان میں56,500 جذام کے مریض رجسٹرڈ کئے جا چکے ہیں۔ جن میں 98% مریضوں کا علاج مکمل ہوچکا ہے۔لیپروسی کنٹرول پروگرام کو آج جس بڑے چیلنج کا سامنا ہے وہ اس مرض سے پیدا ہونے والی معذوری ہے۔ جذام سے متاثرہ مریضوں کی ایک کثیر تعداد معذوری کا شکار ہو چکی ہے۔

رجسٹرڈ مریضوں میں 39% مریض کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔ اسی طرح نئے مریضوں میں بھی معذوری کی شرح 15%ہے جو عالمی ادارہ صحت WHOکے مقرر کردہ حدف 10%سے زیادہ ہے۔ اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ جذام کا خوف اور معاشرتی رویہ ہے جس کے باعث لوگ اس مرض میں مبتلا ہونے پر اس کو چھپاتے ہیں اور دیر سے علاج کروانے پر معذوری سے دوچار ہوکر مختلف معاشی ، معاشرتی و سماجی مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔

جذام کا مرض اب 100% قابل علاج مرض ہے کیونکہ آج اس کا جدید علاج موجود ہے۔ بروقت تشخیص اور علاج سے معذوری کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے اور مریض مکمل طور پر صحتیاب ہوکر نارمل زندگی گزارسکتا ہے ۔ اس لئے اس مرض میں مبتلا ہونے پر شرمندہ یا خوفزدہ ہونے کے بجائے اس کا بر وقت علاج ضروری ہے۔ تاکہ معذوری سے بچاجاسکے ۔ جذام کے خلاف جہاد اور عملی جدوجہد تاحال جاری ہے۔

اس مرض کے مکمل خاتمہ کے لئے پورے ملک میں عملی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جن میں نئے مریضوں کی تلاش کے لئے گھر گھر کا سروے، عالمی ادارہ صحت کی فراہم کردہ دوا MDTکی مفت اور بلا تعطل فراہمی، متاثرہ مریضوں کے انتہائی قریبی فیملی ممبران و دیگر قریبی تعلق رکھنے والے افراد کا معائنہ، مریضوں ، ان کے اہل خانہ اور کمیونٹی ممبران کو جذام مرض کی مکمل معلومات دینا شامل ہے۔

مزید یہ کہ جذام سے متاثرہ مریض جو معذوری کا شکار ہو چکے ہیں ان کی جسمانی، معاشی و معاشرتی بحالی کے لئے CBR یعنی Community Based Rehabilitationپروگرام کو لیپروسی کنٹرول پروگرام کا حصہ بنایا جا رہا ہے تاکہ جس طرح لیپروسی کنٹرول پروگرام TB اور Blindness Control میں حکومت پاکستان کی معاونت کر رہا ہے وہیں دوسری عام معذوری کی روک تھام میں بھی حکومت کا ساتھ دیا جا سکے۔

عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں تقریباً 15%لوگ کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔ پاکستان میں معذور افراد کی تعداد تقریباً5 ملین ہے اورہر سال افراد کے معذورہونے کی شرح 2.7% ہے ۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ MALC اپنی سوشل ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اور اپنے 5 دہائیوں پر محیط تجربہ کی روشنی میں معذوری کی روک تھام او ر معذور افراد کی بحالی میں بھی حکومت کا ساتھ دے۔

اس طرح جذام سے متاثرہ معذور افراد بھی اس پروگرام سے مستفید ہو سکیں گے۔ اس سلسلے میں ابتدائی طور پر ماڈل پروجیکٹ پر کام جاری ہے جس کے تحت معذور افراد کی نشان دہی اور رجسٹریشن کا عمل شروع کیا گیا ہے۔ اب تک 1,200معذور افراد کی رجسٹریشن کی جا چکی ہے اوران میں کچھ کی بحالی کا کام بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح انتہائی پسماندہ علاقوں میں کمیونٹی لیول پر بھی کام شروع کیا گیا ہے جس میں کمیونٹی کی بنیادی ضرورتوں مثلاً پانی ، صحت اور تعلیم کواہمیت دی گئی ہے۔

ان پسماندہ علاقوں میں کمیونٹی اسکول قائم کئے گئے ہیں جن میں تقریباً 600 طلباء وطالبات جو تعلیم جیسی نعمت سے محروم تھے اب تعلیم حاصل کررہے ہیں۔انھوں نے مزید کہاکہمیڈیا معاشرتی اور سماجی برائیوں اور ناانصافیوں کو اجاگر کرکے مظلوموں کی آواز کو اپنے قلم کی طاقت سے بلند کر کے اپنی سوشل ذمہ داریوں کوخوب نبھا رہا ہے ۔ اسی طرح اپنے پیارے ملک پاکستان کو جذام مرض سے پاک کرنے کی ہماری اس جدوجہد میں بھی بھرپور ساتھ دے کر ہمارے ہاتھ مضبوط کریں اور ہمارے پیغام کو ملک کے کونے کونے میں پہنچانے میں ہماری مدد کریں۔

متعلقہ عنوان :